146

بھولاٹی سٹال

ہوا یوں کہ میں اپنے گاؤں ساگری میں موتی مسجد کے پاس کھڑا اپنے دوست وقاص کا انتظار کر رہا تھا۔ یہ گاؤں پوٹھوہار کا دوسرا بڑا گاؤں ہے اور الحمدللہ یہ میرا گاؤں ہے اور اس گاؤں میں ُ میں نے اپنا لڑکپن جوانی سب کچھ خوشگوار یادیں لیے گزارا اور آج بھی خط پوٹھوہار کی سوہنی دھرتی کو دیکھ کر سرکاری سکول کی یادیں اور وہ گلیوں میں گھومنا پھرنا سب ایک جنت نما جریدے میں لے جاتے ہیں۔ یہ یادیں بھی نا انسان کے دامن کو پکڑ کر بیتے لمحوں میں گم کر دیتی ہیں۔ میں بات کچھ اور کر رہا تھا اور وہ بات یہ تھی۔جب میں موتی مسجد کے پاس کھڑا تھا تو افتخار حسین عرف بھولا اور پوٹھوہار ی میں بھولے کو پولا کہا جاتا ہے۔ میرے دوستو بزرگو اور سجنو تے بیلیو یہ وہ اللہ کا نیک پاکیزہ کردار اور بہترین نیت والا بندہ ہے جس نے نہ اپنا بچپن،بچپن کی طرح دیکھا نہ اس سیدھے سادے بندے نے اپنا لڑکپن۔۔ لڑکپن کے روپ میں پایا اور نہ ہی جوانی جوانوں کی طرح گزاری۔ میں نے اس شخص کو جب بھی دیکھا اسی حلیے میں دیکھا یعنی نہ اپنے کپڑوں کی پرواہ نہ اپنے جوتوں کو کبھی پالش کیا اور عید والے روز بھی نماز عید ادا کر کے فوراً اپنے مرحوم والد گرامی اور محنت کش انسان عنایت حسین کے ہاتھوں سے بنائے گئے ہوٹل” پولا ٹی سٹال” پر اپنے گھر والوں کی زندگی

کو بہتر سے بہترین بنانے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ اس کی دوستی صرف ان لوگوں کے ساتھ ہے جو اس کے ہوٹل میں ایک چھوٹا سا چائے کا کپ پینے آتے ہیں۔ یہ اللہ کا نیک اور پاکیزہ بندہ کبھی دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے بھی نہیں گیا۔ اسے فکر تھی اور ہے تو بس اپنے والدین اور بہن بھائیوں اور بچوں کی۔ اس بھائی کی بہت سی خوبیاں ہیں مگر ایک خوبی جو ہر خوبی کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور وہ خصلت بیماروں کی تیمارداری ہے جو اس کی رگ رگ میں خون کی شریانوں کی طرح دوڑ رہی ہوتی ہے۔ افتخار حسین عرف بھولا یعنی پولا کے والد گرامی راجہ عنایت حسین کی دن رات کی محنت کو دیکھ کر یہ درویش انسان اللہ کے نیک بندوں کی فہرست میں رنگ برنگی روشنائی لیے ہر وقت جگمگاتا ہوا دکھائی دیتا ہے اس دن جب مجھے یہ بھائی ملایا اور ہاتھ ملا کر تیز رفتار اپنے کام کیلئے جا رہا تھا۔ میں نے اس کو دوبارہ آواز دی اور کہا رکو وہ واپسپلٹا میں نے اسے گلے لگایا اور میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے کئی برسوں بعد میرے دل کو سکون آیا اور میں نے خود کو ایک پر سکون وادی کے خاموشی کونے میں اس مادی دنیا سے الگ محسوس کیا۔ دوستو اور بھائیو کبھی وقت نکال کر ایسے نیک سیرت اور اللہ کے پسندیدہ افراد سے مل لیا کریں یقین جانیں چند لمحوں کا سکون آپ کی ساری زندگی کی کایا پلٹ دے گا اور پھر آپ یہ سوچیں گے کہ کاش یہ کام میں بہت پہلے کر لیتا تو کتنا اچھا ہوتا۔ ارد گرد بسنے والے افراد اس شخص کو اپنی دعاؤں کے حصار میں رکھتے ہیں اور جو شخص کسی سے درخواست کر کے اپنے لیے دعا کروائے۔ وہ دعا قبول تو ہو ہی جاتی ہے مگر اس دعا کی مقبولیت کا عالم کیا ہوگا جو دعا آپ کے کہے بغیر آپ کے علاقے کے لوگ اور خاص کر کے بزرگ اور مائیں بہنیں بیٹیاں آپ کو دیکھتے ہی دینا شروع کر دیں۔ کسی دانشور نے کیا خوب کہا کہ۔”’آپ اس دن کامیابیوں کی بہترین منزل کے کامیاب ترین فرد ہوں گے جس دن آپ دعا کروانے والے نہیں بلکہ دعا لینے والے بن جائیں گے“۔یاد رکھیں جب ہم سب کسی گلی محلے سے گزر رہے ہوتے ہیں تو آپ کے پاس کھڑے یا گزرتے ہوئے افراد آپ کے حوالے سے ایک دوسرے سے بات ضرور کرتے ہیں یعنی گزرنے والے شخص پر کچھ الفاظ لیے دو انگلیاں ہر حال میں بولتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کس کردار کے مالک ہیں۔ جیسا کردار ہوگا اسی طرح کے الفاظ ہمارا مقدر بنیں گے اور وہ الفاظ دعا بھی ہو سکتے ہیں اور اللہ نہ کرے بدعا کا روپ بھی دھار لیا کرتے ہیں۔ دعا کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم ہاتھ اوپر کر کے اللہ سے کچھ مانگیں۔ اگر ہمارے بارے میں لوگ ایک دوسرے کے پاس بیٹھ کر اچھے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں تو یہ ہمارے لیے دعا ہے اور اگر بہت سے لوگ ہمارے کردار کو بدبودار سمجھتے ہیں تو وہ بدعا دیں یا نہ دیں وہ الفاظ نیکی کے زمرے میں آ ہی نہیں سکتے۔ لہذا اپنا اٹھنا بیٹھنا کچھ ایسا رکھیں کہ جب آپ کہیں سے گزر رہے ہوں تو آپ کو دیکھنے والے افتخار حسین عرف بھولا کی طرح سمجھیں اور انکی زبان سے آپ کے بارے میں بہترین دعا نما الفاظ ادا ہوں۔ اس دن پولا ٹی سٹال کے دولت مند مرد قلندر کی سیدھی سادی دولت دیکھ کر میں نے اپنا دل ودماغ سب کچھ قربان کر دیا۔ میں نے اس شخص کو کبھی کسی چوراہے یا چوک میں کھڑا نہیں دیکھا۔ یہ محبتیں تقسیم کرنے والا انسان بس چلتے پھرتے محبتوں کے گلدستوں سے پیار بھری پتیاں بکھیرتا چلا جاتا ہے اور ان پتیوں کی خوشبو ساری زندگی ترو تازہ رہتی ہے۔ ساگری بازار کی رونقیں اور چہل پہل اس لاڈلے بھولے کے قدموں کی آواز کی سرگوشی کی وجہ سے آباد ہے۔ بس میں اس دن کو اپنے لیے غنیمت جانوں گا جس دن پولا ٹی سٹال کا مالک افتخار عرب پولا میری انگلی پکڑ کر مجھے اپنے ہوٹل میں لے جائے گا اور اپنے ہاتھوں سے ایک کپ گرم چائے مجھے بنا کر دے گا۔بس جاتے جاتے اتنا کہوں گا جتنی مرضی تعلیم حاصل کر لیں جب تک تربیت نہیں ہوگی تب تک یہ تعلیم ہمارا سہارا نہیں بن سکتی۔ اگر شک ہے تو آج کل کے سیاست دانوں کے کردار کو دیکھ لیں جو ہیں تو انتہائی پڑھے لکھے مگر ان کے چال چلن اور کردار کو دیکھ کر گھن آتی ہے ماسوائے چند تربیت یافتہ سیاست دانوں کے۔اور دوسری اور آخری بات یہ کہ تھوڑا سا وقت نکال کر اپنے انپڑھ دادا دادی اور نانا نانی کی زندگیوں کو دل ودماغ کے کسی کونے میں محفوظ کر لیں اور پھر معلوم ہو گا کہ ہمارے بزرگوں نے سکول کا دروازہ تک نہیں دیکھا مگر ان کے کردار آج بھی خوشبو بکھیرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ چلیں آئیں ہم سب آج عہد کریں کہ جو مسکراہٹ اور سکون بھولا بھائی کے چہرے پر نور بکھیرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے وہی سکون ہم سب کے چہروں کی زینت بنے اور یہ کام صاف نیت،بہترین سوچ اور محنت کیے بغیر ہر گز ممکن نہیں ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں