253

بھائی کی یاد میں

دوست کی بیٹی کی رخصتی کی تقریب میں شرکت کے لیے شہر سے دور افتادہ گاؤں میں پہنچا ہی تھا کہ مہمان گھر کی خواتین اور دلہن کی سہیلیاں بارات اور دولہے کے استقبال کے لیے دیدہ زیب پیالی نما کپ میں دودھ اور ہاتھوں میں پھولوں کی پتیاں لیے پرجوش کھڑی تھیں

دوسری جانب فوجی بینڈ باجوں اور بازی گیروں کی لمبی لائن کے پیچھے گھوڑے پر سوار دولہا کے دائیں بائیں اس کے بھائی دھمالیں ڈالتے ہوئے آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے بھائی کی شادی کی والہانہ خوشی سے ان کے چہرے پھولوں کی طرح مہک رہے تھے

ان خوشی کے مناظر کو دیکھتے ہوئے میں برادر اصغر مرحوم و مغفور محمد حبیب کی یاد میں کھو گیا آنکھیں آنسوؤں سے بھرآئیں نا چاہتے ہوئے بھی آنسوؤں کی لمبی جھڑی بہنی شروع ہوگئی آگے پیچھے دیکھ کر آنسو صاف کرنے کی کوشش کی لیکن بھائی کی یاد میں محو ہوکر اتنا جذباتی ہوچکا تھا کہ آنسو بند ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے

مجھے یاد آرہا تھا کہ 9 اکتوبر سے ایک شب قبل کاروبار بند کرکے میرے ہاں تشریف لائے تو دونوں بھائیوں نے ایک ہی پلیٹ میں شام کا کھانا کھایا اگلی شام کو ایک دوسرے کو دور دور سے دیکھا تو ضرور لیکن دعا و سلام اور ملاقات کا موقع نصیب نہ ہوسکا کہ 9 اکتوبر 2013ء کا سورج ابھی طلوع نہیں ہوا تھا صبح ساڑھے چار بجے کے وقت گہری و پر سکون نیند سورہے تھے کہ اچانک بڑے بھائیوں کے گھروں کے سے دروازے کھلنے کی زوردار آوازوں اور ان کے دوڑتے پاؤں کی آہٹوں سے آنکھ کھلی تو کانوں میں آوازیں سنائی دے رہی تھیں کہ حبیب کا موٹرسائیکل حادثہ کا شکار ہوگیا

یہ سنتے ہی اٹھ کھڑا ہوا لیکن کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کیا جائے شاید یہ لمحہ ہمارے لیے قیامت سے کم نہ تھا بڑے بھائی ساتھ گاڑی میں بیٹھے دیگر بھائی اور بھتیجے اندھیرے میں ہی کھیتوں سے ہی دوڑتے ہوئے کلرسیداں روڈ پر واقع ایک پرائیویٹ ہسپتال پہنچے تو پتہ چلا کہ موٹرسائیکل اچانک ہی روڈ میں آنے والے گھوڑے سے ٹکرانے کی وجہ سے حادثہ کا شکار ہوا ہے جس کی وجہ سے بھائی کے سر میں شدید چوٹیں آئیں جس کی وجہ سے ڈسٹرکٹ ہسپتال راولپنڈی ریفر دیا گیا جب ہم وہاں پہنچے تو ان کا سٹی سکین کیا جارہا تھا چہرہ خون آلود ہونے کی بناء پرحالت دیکھی نہیں جارہی تھی

سبھی پر غشی کی کیفیت طاری تھی بڑی مشکل سے سٹیریچر کوآپریشن تھیٹر تک پہنچانے کے بعد باہر گیلری میں ان کی زندگی کی دعائیں کی جارہی تھیں کہ ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد ڈاکٹر صاحب باہر آئے تو ہم ان کی جانب لپکے لیکن وہ ایک ہی جملہ بولتے ہوئے نکل گئے کہ دماغ کا قیمہ بن چکا ہے بس آپ دعا کریں یہ الفاظ ہمارے اوپر بجلی بن کر گرے لیکن اللہ کے فیصلوں کو بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے آئی سی یو وارڈ میں لایا گیا تو سبھی باری باری دیدار کرتے اور اللہ باری تعالیٰ سے ان کی صحت کی دعا کرتے رہے ان کے حادثہ کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی

چونکہ بھائی اخبار کی سیل کے کام سے وابستہ تھے روزانہ صبح ساڑھے چار بجے گھر سے نکلنا مارکیٹ سے اخبار لیکرروات کلرسیداں روڈ پر سپلائی انکا روز کا معمول تھا اس صبح قارئین تک اخبارکی بجائے حادثہ کی خبر پہنچی تو فون کالز کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا لیکن ہم بھائی کی نظر آنے والی جدائی کے خوف و غم سے اتنے نڈھال تھے کہ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اور دوسری جانب حادثہ کی خبر سن کر ہسپتال پہنچنے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا عزیز واقارب بغل گیر ہوکر صبر و تسلیاں اور دلاسے دے رہے تھے مگر قدرت کو جو منظورہوتا ہے وہ ہوکر رہتا ہے پھر ادھر جمعتہ المبارک کی نماز کے لیے اذان کی صد بلند ہورہی اور ساتھ ہی ان کی روح نے داعی اجل کو لیبک کہہ کر اس دنیا فانی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیا

ان کو بچھڑے دس برس بیت چکے ہیں لیکن ان کی جدائی کا زخم ابھی بھی تازہ تازہ لگتا ہے جب بھی یاد آتی ہے کیفیت ناقابل بیان ہوجاتی ہے وہ زندگی کی صرف 37 بہاریں دیکھ سکے لیکن ان کی جہد مسلسل ہمیں ہمیشہ کے لیے امر کر گئی اخبار کی ڈسٹری بیوشن سے شروع ہونے والے کاروبار کی بنیادیں اتنی مضبوط کرگئے ہیں ہم آج بھی اسے مستفید ہورہے ہیں

مجھے یاد ہے جب 1998ء میں ہم نے اخبار کا کام شروع کیا تو گیارہویں جماعت کے طالبعلم تھے وہ صبح سویرے اخبارکی تقسیم کرکے آٹھ بجے کالج بھی پہنچ جاتے انٹرمیڈیٹ کے بعد کریانہ کا کاروبار شروع کیا تو رات دس، گیارہ بجے بند کرکے چند گھنٹے کی نیند کے بعد صبح چار بجے بیدار ہوکر دوبارہ اخبار کی تقسیم کاکام اور پھر سارا دن مسلسل کام ان کی زندگی کا حصہ بنا ہوا تھا اخبار کی سپلائی کاکام موٹرسائیکل کی وساطت سے سرانجام پاتا تھا

حادثہ سے ایک ہفتہ قبل میں نے ان کو تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ڈبل روڈ بن چکا ہے آپ کو بار بار روڈ کو عبور کرنا ہوتا ہے لہذا ہیلمٹ کا استعمال لازمی شروع کریں تو فوری بولے کوئی ضرورت نہیں اگر کوئی اور دیکھ نہیں رہا ہوتا میں تو ہوش میں ہوتا ہوں سڑک کو دیکھ کر کراس کرتا ہوں لیکن اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ہیملٹ نہ ہونا ہی ان کی زندگی کے لیے جان لیوا ثابت ہوا جس کا افسوس ہمیشہ رہے گا دعا ہے اللہ تعالی ان کو جنت الفردوس میں بلند مرتبہ فرمائیں ان کی جدائی سے بھائیوں کی کمر ٹوٹ گئی

بقول عارف کھڑی محمد بخشؒ

باپ مرے سر ننگا ہوے، تے ویر مرن کنڈ خالی

ماواں با ہجھ محمد بخشا کون کرے رکھوالی

ماں مرے تے ما پے مکدے، پیو مرے گھر ویلا

شالا مرن نہ ویر کسے دے اجڑ جاندا جے میلا

سیا ں نال میں کھیڈن گئی آں تے ٹٹ گئیاں نے ونگاں

ماں ھوندی تے ہور چڑہاندی تے پیو تو منگدی سنگا ں

بھائی بھائیاں دے دردی ہوندے تے بھائی بھائیاں دہیاں باہنواں

باپ نے سراں دے تاج محمد تے ماواں ٹھنڈیاں چھاواں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں