چوہدری محمد اشفاق
میٹرک کا رزلٹ آچکا ہے جن والدین کے بچے اچھے نمبروں سے پاس ہو گئے ہیں وہ مبارک باد یں وصول کر رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ منصوبہ بندی بھی کر رہے ہیں کہ آگے بچوں کو کہا ں اور کیسے اعلیٰ تعلیم دلوائی جائے جن والدین کے بچوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے ان کو دل چھوٹا نہیں کرنا چاہئے وہ اپنے بچوں پر تھوڑی سی بھی توجہ دیں توان کومحنت کروائیں تو اگلی باروہ بھی کامیاب ہو جائیں گے بچوں کی تعلیم میں والدین کا کردار نہایت ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے جو والدین بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں ان کے بچے ضرور کامیاب ہوتے ہیں اور جو والدین بچوں پر تعلیمی حوالے سے توجہ نہیں دیتے ہیں اور صرف وقت گزاری سے کام لیتے ہیں تو یہ بات بلکل واضح ہے کہ ان کے بچوں کو ناکامی کا سامنا ضرور کرنا پڑے گا والدین کی سب سے پہلے یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ جب ان کے بچے سکول میں داخلے کی عمر کو پہنچیں تو کم ازکم چھ ماہ قبل ان کو اس معاملے پر سوچ بچارکرنا شروع کر دینی چاہیے کہ بچے کو اچھی تعلیم کے لیے کس ادارے میں داخل کروایا جائے اچھے اور معیاری تعلیمی ادارے یا سکول کا انتخاب سب سے پہلی اور اہم ذمہ داری ہوتی ہے اور جو والدین اچھے ادارے کا انتحاب کرنے میں کامیاب ہو گئے تو کامیابی بھی ان کے بچوں کے ساتھ ساتھ چلتی رہے گی اس کے بعد بچے کی نقل و حرکت پر مکمل نظر رکھی جائے بچے کے اساتذہ سے رابطہ رکھا جائے اور کبھی کبھار بچے کے سکول میں جا کر اس کی کارکردگی کے بارے میں اس کے اساتذہ سے معلومات لینا اپنی روٹین بنالیں اگر آپ صرف پہلے چند سال اپنے بچوں پر مکمل نظر اور توجہ مرکوزکر لیں تو ساری عمربچہ اس خیال میں رہے گا کہ اس کے والدین اس پر نظر رکھے ہوئے ہیں ۔بچوں کا سکول کی طرف سے دیا جانے والا ہوم ورک باقاعدگی سے چیک کریں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے بچے کبھی ناکام ہوں کامیابی کا راز یہ بھی ہے کہ ہم تعلیمی حوالے سے ہر وقت بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں نا کامی پر ڈانٹ ڈبٹ کے بجائے ان کو احساس دلائیں کہ تم بھی اگرمحنت کرو تو کامیابی حاصل کر سکتے ہو کامیابی حاصل کرنے پر ان کو انعامات کا لالچ دیا جائے تو آپ کا بچہ ضرور کامیابی حاصل کرے گا اس کے علاوہ بچے کی ابتدائی تربیت کا بھی ہر حال میں خیال رکھیں اس کو ابتدا ہی سے اخلاقیات سکھائیں اس کو اچھی عادات کا پابند بنائیں عادات سے مراد ایسی باتیں ہیں جو ہمارے اندر رچ بس جاتی ہیں اور پھر ان کو بدلنا بہت دشوارہو جاتا ہے نوجوانوں کی طرح بچے بھی اچھی بری باتیں اپنا لیتے ہیں اور جب ہم چاہتے ہیں کہ بری عادت والا بچہ اچھا بن جائے تو ہمیں بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اگر کسی برائی کو شروع ہی سے پکڑ لیا جائے تو اس دور کرنا آسان ہو جاتا ہے اگر کسی برائی کو شروع ہی سے پکڑ لیاجائے تو اسے دور کرنا آسان ہو جاتا ہے اگر بچے تھوڑے بڑے ہو جائیں تو بجائے ڈانٹ ڈپٹ کر کے ان کی بری عادت کو دورکرنے کی کوشش کریں بہتر یہ ہو گا کہ ان سے دوستانہ ماحول اپنا کر ان سے گل مل جائیں اور ان کے ساتھ رہ کر ان کی عادات کو تبدیل کریں اس کے لیے ہمیں خود بھی اپنی عادات کو بدلنا ہو گا بصورت دیگر ہماری باتوں کو بچے بلکل فضول سمجھ کر کانوں میں نہیں دھریں گے ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنی باتوں میں بھی بچوں کو مداخلت کی اجازت دیں اس سے بچے کبھی یہ تاثر نہ لیں گے کہ ہمیں بلا وجہ ڈانٹ پڑتی رہتی ہے بلکہ والدین جو بھی کر رہے ہیں وہ ہماری بہتری ہی کہ لئے ہے اگر بچوں کی عزت نفس کا خیال رکھا جائے تو بری عادت چھوڑنے کے سلسلے میں یہ چیز ان کے لئے بے حد مفید ثابت ہو سکتی ہے جن والدین کے بچے اچھی عادات کے مالک ہوں گئے لائق ہوں گئے اچھی تعلیم حاصل کریں گے وہ ہمیشہ خوش و خرم رہیں گے ا س کے علاوہ ہمیں ان چیزوں پر بھی دھیان دینا چاہئے کہ جس طرح ہم اپنے بچوں کی بہترتعلیم کے کوشاں رہتے ہیں اسی طرح ہمیں اپنے اردگرد بسنے والے بچوں کی طرف بھی دیکھنا چاہئے اور ایسے والدین جن کے بچے ذہین بھی ہیں اور اچھی تعلیم بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے والدین میں اتنی استطاعت نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوا سکیں اور ان کے گھریلو حالات اس سلسلہ میں ان کے لیے رکا وٹ کا باعث بنے ہوئے ہیں اگر ہم ایسے بچوں کی تھوڑی سی بھی امداد کرنے کا عزم کر لیں تو یقیناًوہ بھی اچھی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اپنے لئے تو ہم بہت کچھ کرتے ہیں لیکن کام صرف وہی اعمال آئیں گے جو ہم کسی دوسرے کی بھلائی کے لیے کریں گے اور ایسے ہی اعمال دنیا و آخرت میں ہماری بخشش کا زریعہ بنیں گے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے بچوں کی قرآن و سنت کے مطابق تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین){jcomments on}
میٹرک کا رزلٹ آچکا ہے جن والدین کے بچے اچھے نمبروں سے پاس ہو گئے ہیں وہ مبارک باد یں وصول کر رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ منصوبہ بندی بھی کر رہے ہیں کہ آگے بچوں کو کہا ں اور کیسے اعلیٰ تعلیم دلوائی جائے جن والدین کے بچوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے ان کو دل چھوٹا نہیں کرنا چاہئے وہ اپنے بچوں پر تھوڑی سی بھی توجہ دیں توان کومحنت کروائیں تو اگلی باروہ بھی کامیاب ہو جائیں گے بچوں کی تعلیم میں والدین کا کردار نہایت ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے جو والدین بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں ان کے بچے ضرور کامیاب ہوتے ہیں اور جو والدین بچوں پر تعلیمی حوالے سے توجہ نہیں دیتے ہیں اور صرف وقت گزاری سے کام لیتے ہیں تو یہ بات بلکل واضح ہے کہ ان کے بچوں کو ناکامی کا سامنا ضرور کرنا پڑے گا والدین کی سب سے پہلے یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ جب ان کے بچے سکول میں داخلے کی عمر کو پہنچیں تو کم ازکم چھ ماہ قبل ان کو اس معاملے پر سوچ بچارکرنا شروع کر دینی چاہیے کہ بچے کو اچھی تعلیم کے لیے کس ادارے میں داخل کروایا جائے اچھے اور معیاری تعلیمی ادارے یا سکول کا انتخاب سب سے پہلی اور اہم ذمہ داری ہوتی ہے اور جو والدین اچھے ادارے کا انتحاب کرنے میں کامیاب ہو گئے تو کامیابی بھی ان کے بچوں کے ساتھ ساتھ چلتی رہے گی اس کے بعد بچے کی نقل و حرکت پر مکمل نظر رکھی جائے بچے کے اساتذہ سے رابطہ رکھا جائے اور کبھی کبھار بچے کے سکول میں جا کر اس کی کارکردگی کے بارے میں اس کے اساتذہ سے معلومات لینا اپنی روٹین بنالیں اگر آپ صرف پہلے چند سال اپنے بچوں پر مکمل نظر اور توجہ مرکوزکر لیں تو ساری عمربچہ اس خیال میں رہے گا کہ اس کے والدین اس پر نظر رکھے ہوئے ہیں ۔بچوں کا سکول کی طرف سے دیا جانے والا ہوم ورک باقاعدگی سے چیک کریں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے بچے کبھی ناکام ہوں کامیابی کا راز یہ بھی ہے کہ ہم تعلیمی حوالے سے ہر وقت بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں نا کامی پر ڈانٹ ڈبٹ کے بجائے ان کو احساس دلائیں کہ تم بھی اگرمحنت کرو تو کامیابی حاصل کر سکتے ہو کامیابی حاصل کرنے پر ان کو انعامات کا لالچ دیا جائے تو آپ کا بچہ ضرور کامیابی حاصل کرے گا اس کے علاوہ بچے کی ابتدائی تربیت کا بھی ہر حال میں خیال رکھیں اس کو ابتدا ہی سے اخلاقیات سکھائیں اس کو اچھی عادات کا پابند بنائیں عادات سے مراد ایسی باتیں ہیں جو ہمارے اندر رچ بس جاتی ہیں اور پھر ان کو بدلنا بہت دشوارہو جاتا ہے نوجوانوں کی طرح بچے بھی اچھی بری باتیں اپنا لیتے ہیں اور جب ہم چاہتے ہیں کہ بری عادت والا بچہ اچھا بن جائے تو ہمیں بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اگر کسی برائی کو شروع ہی سے پکڑ لیا جائے تو اس دور کرنا آسان ہو جاتا ہے اگر کسی برائی کو شروع ہی سے پکڑ لیاجائے تو اسے دور کرنا آسان ہو جاتا ہے اگر بچے تھوڑے بڑے ہو جائیں تو بجائے ڈانٹ ڈپٹ کر کے ان کی بری عادت کو دورکرنے کی کوشش کریں بہتر یہ ہو گا کہ ان سے دوستانہ ماحول اپنا کر ان سے گل مل جائیں اور ان کے ساتھ رہ کر ان کی عادات کو تبدیل کریں اس کے لیے ہمیں خود بھی اپنی عادات کو بدلنا ہو گا بصورت دیگر ہماری باتوں کو بچے بلکل فضول سمجھ کر کانوں میں نہیں دھریں گے ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنی باتوں میں بھی بچوں کو مداخلت کی اجازت دیں اس سے بچے کبھی یہ تاثر نہ لیں گے کہ ہمیں بلا وجہ ڈانٹ پڑتی رہتی ہے بلکہ والدین جو بھی کر رہے ہیں وہ ہماری بہتری ہی کہ لئے ہے اگر بچوں کی عزت نفس کا خیال رکھا جائے تو بری عادت چھوڑنے کے سلسلے میں یہ چیز ان کے لئے بے حد مفید ثابت ہو سکتی ہے جن والدین کے بچے اچھی عادات کے مالک ہوں گئے لائق ہوں گئے اچھی تعلیم حاصل کریں گے وہ ہمیشہ خوش و خرم رہیں گے ا س کے علاوہ ہمیں ان چیزوں پر بھی دھیان دینا چاہئے کہ جس طرح ہم اپنے بچوں کی بہترتعلیم کے کوشاں رہتے ہیں اسی طرح ہمیں اپنے اردگرد بسنے والے بچوں کی طرف بھی دیکھنا چاہئے اور ایسے والدین جن کے بچے ذہین بھی ہیں اور اچھی تعلیم بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے والدین میں اتنی استطاعت نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوا سکیں اور ان کے گھریلو حالات اس سلسلہ میں ان کے لیے رکا وٹ کا باعث بنے ہوئے ہیں اگر ہم ایسے بچوں کی تھوڑی سی بھی امداد کرنے کا عزم کر لیں تو یقیناًوہ بھی اچھی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اپنے لئے تو ہم بہت کچھ کرتے ہیں لیکن کام صرف وہی اعمال آئیں گے جو ہم کسی دوسرے کی بھلائی کے لیے کریں گے اور ایسے ہی اعمال دنیا و آخرت میں ہماری بخشش کا زریعہ بنیں گے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے بچوں کی قرآن و سنت کے مطابق تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین){jcomments on}