بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ پاکستان بمقابلہ اینٹی پاکستان فورسنر غیر اعلانیہ جنگ ہے۔ پاکستان کو ہمہ جہت اور شاندار کار کر دگی سے یہ جنگ جیتنا ہو گی۔ یہاں شکست سرے سے کوئی آپشن ہے ہی نہیں‘یہ جنگ ہم مشرقی پاکستان میں ہار گئے یہ جنگ ہم کالا باغ ڈیم میں ہار گئے‘
اس مرتبہ ہم اسے ہارنا برداشت ہی نہیں کر سکتے یہ ہمارے باقی ماندہ پاکستان کی بقا کی جنگ ہے۔بلوچستان اور گوادر کے معاملات خراب ہوتے ہیں تو سی پیک سے جڑے روشن مستقبل کے امکانات ختم ہو جائیں گے اور پاکستان کی دگرگوں معیشت کا عالی خواب یہیں دم توڑ دے گا اور پاکستان کی حیثیت خطے میں انتہائی کمزور ہو جائے گی۔
اگر پاکستان اس جنگ میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر دنیا کی صف بندی کا توازن وہ نہیں رہے گا یہ وہ نکتہ ہے جہاں دشمن ممالک ہی نہیں بلکہ کچھ دوست ممالک بھی اینٹی پاکستان فورسز کے ساتھ ہاتھ ملا کر اسے ناکام کر نے کے درپے ہیں وہ دوست ممالک جنہیں ہم جذباتی وارخنگی میں امت مسلمہ کا درصہ دیتے ہیں ان سب کے مفادات الگ الگ ہیں کوئی یہاں پر اکسی جنگ لڑ رہا ہے تو کئی ممالک معاشی مفادات کا تحفظ یقینی بنانا چاہتے ہیں
لیکن ٹارگٹ گوادار اور بلوچستان کو ترقی کرنے سے روکنا ہے کہ مستقبل میں یہ دنیا کا معاشی حب نہ بن جائے بالکل ویسے ہی جیسے کالا باغ ڈیم کو بننے سے روکا گیا اور آ ج پاکستان شدید معاشی بحران سے دو چار ہے بلوچستان لبریشن آرمی اس طریقے سے کام کر رہی ہے جیسے مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی نے کیا تھا مکتی باہنی نے بھی پنچابیوں کو ٹارگٹ کیا تھا اور اُنھیں چن چن کر مارا تھا
مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن تو بہت بعد کی بات ہے غیر بنگالیوں اور بالخصوص پنجابیوں کے قتل عام اور اُن کی خواتین کی عزتیں لوٹنے کا سلسلہ بہت پہلے سے شروع ہو گیا تھا کسی ایک قومیت کو یوں چُن چُن کر مارنے کے پیچھے ایک پوری فلاسفی ہوتی ہے وفاق کی سب سے بڑی قومیت کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے تاکہ اس کی طرف سے جوابی نفرت بڑھے اور وہ شایدکا رروائی کا مطالبہ کرے اس حکمت عملی کے مقاصد بڑے واضح ہیں
مکتی باہنی کا مقصد یہ تھا کہ جواب میں پنجابی قوم بھی بنگالیوں سے نفرت کرے اور اس نفرت کی وجہ سے عام بنگالیوں میں مکتی باہنی کے مقاصد سے وابستگی پیدا ہو یہی کا م بلوچستان لبریشن آرمی بھی کر رہی ہے وہ چُن چُن کر پنجابیوں کو مار رہی ہے تا کہ جواب میں پنجاب میں بلوچوں کو بھی نفرت کا نشانہ بنایا جائے اور دو طرفہ فسادکی صورت پیدا ہو اور معاملات انتہائی بگڑتے چلے جائیں اور اس کے درعمل میں معتدل بلوچ بھی انتہا پرجا کر بی ایل اے کے ساتھ کھڑا ہو جائے اس کام میں مکتی باہنی کو اس حد تک کامیابی ملی کہ مغربی پاکستان میں بنگالیوں کے الگ ہونے کا تاثرشدت پکڑ گیا
تاہم مغربی پاکستان میں فساد کی صورت پیدا ہو سکی اور یہاں مقیم بنگالی محفوظ رہے بی ایل اے بھی تاحال اس میں کامیاب نہ ہو سکی لیکن اب پنجاب سے پنجاب میں مقیم بلوچوں کے بارے میں کچھ نئی آواز یں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں جنہیں دانشمندی سے سمجھنا اورسلجھانا وقت کی اہم ضرورت ہے مکتی باہنی کے ہاتھوں ہونے والے قتل عام کو ریاست نے یہاں مغربی پاکستان کے اخبارات میں سنسر کر دیا اور کسی کو خبر ہی نہ ہو سکی کہ مکتی باہنی نے پنجابیوں کے ساتھ کیا کیا ظلم کئے اس کے پیچھے یہی سوچ تھی کہ مغربی پاکستان میں موجود بنگالی بھی پاکستان کے شہری تھے اور ریاست نے اُن کا بھی تحفظ کر نا تھا
ریاست کو ڈر تھا کہ غیر بنگالیوں کے قتل عام کی خبریں آنے پر کہیں بنگالیوں کو انتقام کانشانہ نہ بنایا جائے اگر چہ بعد میں
اس کا نقصان ہوا اور بنگلہ دیش کے یکطرفہ پروپیگنڈے کو پھیلایا گیا اور عوامی لیگ کی جانب سے یکطرفہ پروپیگنڈا ہوتا رہا اور تصویر کا دوسرا رخُ کبھی سامنے نہ آسکا یہی کام ہو رہا ہے احساس ذمہ داری کے بہت مسلسل پنجابیوں کے قتل عام کے باوجود نیشنل میڈیا میں فسادات کا عنوان پنجابی قومیت نہیں بننے دی گئی اور نہ ہی پنجاب میں بلوچوں کو جوابی نفرت کا نشانہ بنایا گیا
وفاق کی بڑی قومیت کو ٹارگٹ کر نے کا ایک مقصد یہ بھی ہو تا ہے کہ دباؤبڑھے اور کوئی آرمی ایکشن ہواور پھر ان گر وہوں کو ان کے شہید مل جائیں مکتی باہنی اس مقصد میں کامیاب رہی بی ایل اے کو ابھی تک کوئی بڑی کامیابی نہیں مل سکی جزوی آپریشنز تو ہوتے رہے ہیں لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا جیسا انہیں درکارہے ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ مقامی افراد اور اُن افسران کا قتل کیا جائے جو وفاق کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور علیحدگی پسندوں کے الہ کار نہیں بنتے مکتی باہنی نے بھی ایسے سینکڑوں بنگالی افسران کا قتل کیا جو پاکستان کے ساتھ تھے اور بلوچستان لبریشن آرمی نے بھی بلوچستان میں یہی سلسلہ شروع کر رکھا ہے افسران پر شدید دباؤ ہے اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ریاستی عملداری کو مفلوج کر دیا جائے جہاں وفاق کی بڑی اکائی کا قتل عام ہوتا ہے تو وہاں کے مقامی دانشور ان کے فکری سہولت کار اور مداح خاموش ہو جاتے ہیں
چنانچہ مکتی باہنی کے لاکھوں ہزاروں غیر بنگالیوں اور خصوصاً پنجا بیوں کا قتل عام ہوتا رہا لیکن عوامی لیگ اور اُس کے فکری سہولت کاروں نے خاموشی اختیار کئے رکھی یہی کام بلوچستان میں جاری ہے بلوچستان کے دانشور اور فکری سہولت کار بلوچستان میں پنجابیوں کے قتل عام پر احتجاج یا مذمت نہیں کرتے بلکہ انہوں نے خاموشی اختیار کر لی کہیں سے ان سب کے نزدیک یہ ایک معمول کا ری ایکشن اور بلوچستان کے حالات میں ایسا ہونا بعید از قیاس نہیں اور یہ ناراض اور متاثرہ گروپس کی کارووائیاں ایکشن ہے اور بلوچستان کے حالات میں ایسا ہونا بعید ازقیاس نہیں اور یہ ناراض اورمتاثرہ گروپس کی کاروائیاں ہیں
ریاست کو اپنی بہترین حکمت عملی کے ساتھ اس معاملے سے نمٹناہے یہ محض سیکورٹی کا مسئلہ نہیں ہے کہ ہمہ جہت چیلنج ہے عسکری کے ساتھ ساتھ سماجی اور سیاسی چیلنج بھی ہے اور وہ فالٹ لائین بھرتی ہو گی جو ان تنظیموں کی لائف لائن ہے یہ لائف لائن سیاسی یکجہتی آپسی مسائل پر قابو پا کر اور گڈگو رننس سے ہی کاٹی جا سکتی ہے ایک منشر اور متحارب قوم اس چیلنج کو نہیں لے سکتی اس ہمہ جہت چیلنج کا مقابلہ ہر سطع پر کرنا ہو گا یہ بقا کا معاملہ ہے اور ریاست کو اپنے قدموں پر کھڑے ہو کر مقابلہ کر ناہے
ایک حکمت عملی یہ بھی ہے کہ بلوچستان کے معتدل عناصر کو موقع دیا جائے اور انہیں انگیج کیا جائے اور بلوچستان میں امن قائم کرنے کے لئے اُن کے جائز مطالبات پر غور کیا جائے مذاکرات اور امن قائم کرنے کے لئے ہر حال میں اُن کو موقع دیا جائے کہ فوجی ایکشن ہمیں کم اور علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں کو زیادہ سوٹ کرتا ہے اور فوجی ایکشن کے بعد آپشنز نہیں ہوتے ہمیں اپنی سرحدوں اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کو بھی بہتر کرنا ہوگا کہ فوجی آپریشن کی صورت میں یہی ان علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں کی پناہ گاہیں اور آپریشن کی نا کا می کا سبب بنتے ہیں اور یہ کہ ہماری ساری توجہ اپنی اندر ونی سیاسی اکھاڑ پچھاڑسیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے اور ہر حال میں اقتدار کا حصول ہے
کہ ہم ذاتیات اور اقتدارکی جنگ سے نہ نکل سکے تویہ منتشر قوم اتنی بڑی لڑائی کیسے لڑے گی جب مقابلے میں ورلڈ الیون ہو تو صرف اور صرف قومی مفاد کو سامنے رکھ کر بہترین حکمت عملی بہترین کھلاڑیوں اور بہترین کارکردگی سے ہی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔