کسی جنگل میں ایک مغرور اونٹ رہتا تھا۔اُسے اپنے لمبے قد اور چال ڈھال پر بڑا ناز تھا۔اسکا دعویٰ تھا کہ میں سب سے اعلیٰ ہوں۔اُسکا جہاں جی چاہتا منہ اُٹھا کر چلا جاتا اور سب جانوروں سے بدتمیزی کرتا رہتا۔اُسکے گھر کے قریب چوہے کا بل تھا اور اونٹ کو اُس چوہے سے سب سے زیادہ نفرت تھی وہ اُس چوہے کو نہ جانے کیا کیا القابات دیتا رہتا لیکن چوہا ہنس کے ٹال دیتا تھا۔ سب جانور ہی اونٹ سے اُسکے تکبر کی وجہ سے تنگ تھے اور چاہتے تھے کہ اُسے اُسکے کئے کی سزا ملے مگر ابھی تک اونٹ کو کھلی چھٹی ملی ہوئی تھی وہ بہار کا خوشگوار موسم تھا،ہر طرف پھول کھلے ہوئے تھے اور جنگل میں بھینی بھینی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔اونٹ سو کر اُٹھا تو اُسے بڑی زبردست بھوک محسوس ہوئی وہ منہ اُٹھائے چرنے نکل گیا اور اپنی لمبی گردن اُٹھا کر درختوں کے پتے پھول اور پھل کھاتا رہا اسی دوران اُس نے کانٹوں بھرے درخت کی ٹہنی دیکھی تو اُسے توڑنے کیلئے اپنی گردن اوپر اٹھائی۔اُس نے اپنے دانت خاردار ٹہنی میں گاڑے ہی تھے کہ اُسکی گردن ایک شاخ میں اُلجھ گئی
۔اب تو اونٹ کی ساری شیخی ہوا ہو گئی۔وہ زور لگا لگا کر جب تھک گیا تو زور زور سے رونے لگا مگر کسی نے اُس کی نہ آواز سنی اور نہ ہی مدد کو آیا۔کچھ دیر بعد جب جنگل کے جانوروں کو اونٹ کی مشکل کا پتہ چلا تو وہ اسکو ہمدردی سے دیکھنے لگے لیکن اُسکی مدد نہ کر سکے۔اسی دوران چوہا بھی وہاں پہنچ گیا،اُس نے اونٹ کی جو یہ حالت دیکھی تو درخت پر چڑھنا شروع کر دیا۔
جانوروں نے اُسے منع کیا مگر چوہے نے کسی کی نہ مانی اور اُس شاخ تک جا پہنچا جہاں اونٹ کی گردن پھنسی ہوئی تھی۔کمزور ہونے کے باوجود اُس نے شاخ کو ہلا ہلا کر اونٹ کی گردن آزاد کی تو اونٹ کی جان میں جان آئی۔اب اونٹ کو معلوم ہو چکا تھا کہ جنگل میں ہر جانور اہم ہے۔اُسکا غرور خاک میں مل چکا تھا۔اُس نے سب جانوروں سے معافی چاہی اور چوہے کو اپنا پکا دوست بنانے کا اعلان بھی کیا۔سب جانور ہنستے ہوئے اپنے گھروں کی طرف چلے گئے۔سچ ہے جو مشکل میں کام آئے وہ دوست ہے۔(ارسلان حفیظ)