اومیکرون وائرس 233

اومیکرون وائرس

ایک آفت ایک آزمائش ایک مصیبت سے عالم انسانیت کی جان شکنجے میں پھنسی ہی ہوئی تھی کہ اس سے بڑھ کر خوفناک اور خطرناک وباوارد ہو گئی ہے کہا جا رہا کہ یہ نئی وبا کورونا ہی کی ایک قسم ہے مگر اس سے زیادہ خطرناک ہے اس کا نام یونانی زبان سے اومیکرون لیا گیا ہے اطلاع یہ دی گئی ہے کہ جن لوگوں نے کورونا کی ویکسین لگا رکھی ہے اگر وہ بوسٹر ڈوز لگوائیں تو بچنے کا امکان موجود ہے اور اطلاع یہ بھی ہے کہ ویکسین لگانے والوں کو اس وائرس نے اس طرح متاثر نہیں کیا جس طرح غیر ویکسین والوں کو متاثر کیااس کے باوجود تمام دنیا ایک تشویشناک خوف کی لپیٹ میں آگئی ہے کورونا پر زور کم ہونے پر جو پابندیاں اٹھائی گئی تھیں وہ اب دوبارہ لگائی جا رہی ہیں اس وائرس کا پھیلاؤ جنوبی افریقہ کے ممالک سے ہونے کی اطلاعات کے باعث سب سے پہلی پابندیاں جنوبی افریقی ممالک پر ہی لگائی گئی ہیں جنوبی افریقہ‘موزمبیق‘نمیبیا یسوتھولوسورنیہ‘ایستوانیا کے علاوہ ہانگ کانگ پر سفری پابندیاں لگا دی گئی ہیں برطانیہ میں پھر سے پبلک مقامات پر ماسک لگانے کی پابندی عائد کر دی گئی ہے پابندی والے ممالک سے صرف ایمرجنسی کی صورت میں پاکستانیوں کو آنے کی اجازت دی جائے گی پوری یورپی یونین کے علاوہ امریکہ میں بھی اس خطرے کے تدارک کیلئے ایمرجنسی اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ سعودی عرب‘بحرین‘کینیڈانے بھی افریقی ممالک کی پروازیں بند کر دی ہیں اگر یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہا اور وبا کی صورت حال خراب ہونے لگی تو پابندیوں میں یقینا اضافہ ہوتا چلا جائے گا کورونا وائرس کے تجربے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس سے انسانی جانوں کیلئے جوخطرات پیدا ہوتے ہیں اس سے کہیں بڑھ کر اقتصادی اور معاشی مسائل پیدا ہوتے ہیں جو وائرس سے بچ جانے والوں کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں دوسال گزر گئے ہیں لیکن کورونا وائرس نے ابھی تک پوری دنیا میں افسردگی اور ڈیپریشن پھیلایا ہوا ہے تین چار مہینے گزرتے ہی ایک بڑی لہر آ جاتی اور پھر سب کچھ بند ہو جاتا ہے دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹ بری طرح متاثر ہو جاتی ہیں اس کے علاوہ عالمی سطح پر کاروباری حالات ناہمواری کا شکار ہو جاتے ہیں پاکستان میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کے کاروباراور نوکریاں کورونا کھا گیا صنعتوں کا پہیہ جام ہو گی جس سے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے ہیں جان لیوا وائرس سے متاثر ہونے والے بہت سے لوگ راہی ملک عدم ہو گئے ہیں ہمارے ملک میں حکومت نے بڑی دانشمندی سے مکمل لاک ڈاؤن سے پرہیز کرتے ہوئے سمارٹ لاک ڈاؤن کا طریقہ اپنایااور حتی الامکان معیشت کو بچائے رکھا اس کے باوجود پابندیاں ختم ہونے کے بعد مہنگائی اوربے روزگاری کے عفریب نے شہریوں کو جکڑ لیا اور الزام سارے کا سارا حکومت پر لگایا جا رہا ہے اب اگرایک بار پھر پابندیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جو کہ لازماََ ہو گاتو بہت سے لوگ جیتے جی مر جائیں گے تعمیرات اور ٹریولنگ کا شعبہ پہلے بھی بری طرح متاثرہوئے تھے پابندیوں میں نرمی کے بعد تعمیرات کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں اس سے وابستہ کچھ صنعتیں بھی بحال ہو گئی تھیں تاہم ٹریولنگ کا کاروبار پوری طرح بحال نہ ہو سکامگر اب خطرات پھر سے منڈلانے لگے ہیں امریکہ‘چین‘سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے تیل کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کم کرنے کیلئے بعض اقدامات کا فیصلہ کیا ہے ان میں ایک توتیل کی پیداوار میں اضافہ اور دوسرا تیل کے اپنے محفوظ ذخائر میں سے تیل عالمی منڈی میں ڈالنے کے اعلانات تھے اب اومیکرون کی خبریں پھیلتے ہی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے اگر ان چار ممالک نے اپنے اعلانات پر عمل کیا تو توقع کی جاسکتی ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کچھ نہ کچھ حد تک روکنے میں مدد ملے گی ہمارے ہمسایہ ممالک خصوصاََبھارت نے پیٹرول پر ٹیکس کی شرح کم کر کے عوام کو ریلیف دینے اور مہنگائی کا جن قابو کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ہمارے ہاں اس ضمن میں کچھ بھی نہیں کیا گیالہذٰا حکومت کو اس سلسلے میں ضرور سوچنا چاہیے مگر معاملہ یوں ہے کہ ہم عالمی منڈی نرخوں کو ہی بنیاد بنا کر اپنے ہاں پیٹرول مصنوعات کی قیمتوں کا تعین کرتے ہیں مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ حکومتیں اپنی کمائی کم کرنے پر تیار نہیں ہوتیں شاید ہماری معیشت کی موجودہ صورتحال میں حکومتوں کے پاس کمائی اور بجٹ پورا کرنے کے متبادل راستے محدود ہیں عالمی منڈی میں یکدم قیمتیں کم ہونے اور چار ملکوں کی طرف سے اپنے ذخائر منڈی میں لانے کے باعث قیمتوں میں قابل ذکر کمی کا امکان موجود ہے اللہ کرے کہ اس کا فائدہ عوام تک پہنچے اور مہنگائی اگر کم نہیں کی جاتی تو اس میں تیز رفتار اضافے کو روک لیا جائے ویسے بھی بیماری اور وبا میں ایک طرف وسائل آمدن کم ہو جاتے ہیں تو دوسری طرف اخراجات میں بے تحاشہ اضافہ ہو جاتا ہے اس سے گھر گھر معاشی اور اقتصادی مسائل جنم لیتے ہیں اچھی حکومتیں ایسے مواقع پر خود آگے بڑھ کر عوام کا بوجھ بٹاتی ہیں اور ریلیف کے مختلف اقدامات کرتی ہیں دعا کیجئے کہ پہلے سے دکھی انسانیت کسی بھی نئے بحران سے محفوظ رہے اور اومیکرون جیسے موذی وائرس بے قابو نہ ہواس کے تدارک کے سامان ہو جائیں اور پھیلاؤ روک لیا جائے دوسرے حکومتوں اور عالمی اداروں کو چوکس رہ کر عوام کی مشکلات کم کرنے کی مقامی اور عالمی پالیسیوں کا جلد از جلد انتظام کر لینا چاہیے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو اس وقت عالمی اداروں اور خوشحال ممالک کے اقتصادی تعاون کی اشد ضرورت ہے اگر اس نازک موقع پر ستی اور کوتاہی برتی گئی تو انسانی المیے جنم لے سکتے ہیں اللہ اس قسم کی کسی بھی صورت حال سے محفوظ و مامون رکھے آمین

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں