پروفیسر محمد حسین
علم ایک کامل وا کمل نور ہے جس سے اند ھیرے چھٹ جاتے ہیں اور انسان عروج وکمال حاصل کر لیتا ہے شعور وآگہی ‘اخلاق واطوار ‘حلم وبردباری ‘صبر اور برداشت سب علم ہی کی بدولت حاصل ہوتا ہے اور حصول علم میں کسی بھی طالب علم کے لئے رہنما اصولوں میں جہاں دیگر اصول کار فرماہیں وہیں یکسوئی اور فراغت انتہائی اہم ہیں کوئی بھی شخص اعلیٰ درجہ ومقام اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ اپنے موجودہ درجہ سے اگلے درجہ کی خواہش نہ رکھتا ہو دنیا کے کسی بھی نا مور عالم ‘ ڈاکٹر ‘انجینئر ‘سائنس دان کی زندگی پر اگر غور کیا جائے تو ان کی کامیابی کا راز ایک ہی نظر آئے گا کہ انہوں نے یکسوئی علیحدگی اور تمام دنیاوی مصروفیات سے الگ ہو کر پوری توجہ سے علم حاصل کیا تب جاکر اپنے علم سے خود بھی مستفید ہوئے اور دنیا کو بھی اپنی ایجادات وتجربات سے ورطہ حیرت میں ڈالا امام غزالی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم کی غرض سے جب مدرسہ میں آئے تو گھروالوں سمیت سب سے ناطہ توڑ لیا اس زمانہ میں رابطہ کا بڑا ذریعہ خطہ ہوا کرتے تھے جو بھی خطہ آتا اسے ایک مٹی کے گھڑے میں ڈالتے جاتے تھے اور تقریبا آٹھ سال بعد جب سند فراغت حاصل کی اور گھر جا کر پڑ ھے اس کے مقابلہ میں آج کے طالب علم کی زندگی پر غور کیا جائے تو واضع نظر آتاہے کہ موجودہ طالب علم ہمہ وقت کئی مسائل کا شکار ہے اور اپنے اصل مقصد اور منزل سے ہٹ کر اپنا قیمتی وقت ضائع اور برباد کرنے میں مصروف ہے ان میں ایک موبائل اور انٹرنیٹ بھی ہے جو بلاشبہ سائنسی علمی ترقی کی ایک خوبصورت شکل ہے دور قدیم میں پیغام رسانی کا جو سلسلہ مشکل انتہائی تکلیف دہ اور وقت طلب تھا موبائل کی ایجاد نے اسے سہل ‘آسان اور بروقت بنادیا کہ اب پیغام دنیا کے کسی کونے میں چند سیکنڈ میں پہنچایا جاسکتا ہے سائنسی ترقی کی جتنی بھی شکلیں سامنے آئی ہیں ان کے فوائد ونقصانات یکساں ہیں مثلا تیز ترین سواری جہاز ‘ریل کاریں حادثات کا شکار جانوں کا ضیائع مگر اہم ضرورت ‘اسلحہ ‘ایٹم بم کھلی موت مگر دفاع کے لئے ضروری انٹرنیٹ کیبل موبائل وقت کی ضرورت زندگی کا حصہ مگرنفع ونقصان کے حامل ہیں ذراسوچئے موبائل انٹرنیٹ کے عام انسانی زندگی پر اثرات بد کا انکار ممکن نہیں مگر ایک طالب علم کے لئے انتہائی مضر اور زہر قتل ثابت ہو رہے ہیں دور جدید میں یہ ضرورت سے آگے پڑھ کر فیشن بن چکے ہیں اور موبائل کمپنیاں اور اس میں استعمال ہونے والے سم کارڈ کی کمپنیاں دن بدن نئے سے نئے ڈیزائن اور نت نئے پیکج دے کر جہاں عام لوگوں کو بے وقوف بنارہے ہیں وہیں طالب علم بھی اس سے شدید متاثر ہورہا ہے امراء کے بچے جب مہنگے موبائل اور ان کا بے جا استعمال گانے ‘ٹیونز ‘فلمیں اور فیس بک اخلاق سوز ویڈیوز‘موبائلوں میں بھر کر سکول کالج یونیورسٹی آتے ہیں تو وہ اپنا تعلیمی نقصان کرنے کے ساتھ ساتھ متوسط طبقہ کے طلباء کے ذہن کو بھی خراب کرتے ہیں اپنے حالات کی پرواہ کئے بغیر اپنے مقصد کو پس پشت ڈال کر دیکھا دیکھی دوسرے طلبا ء وطالبات بھی اس دوڑ میں شامل ہونا برابری دکھانا سٹیٹس بحال رکھنا ضروری سمجھتے ہوئے اکثر سکول ہاسٹل کالج کی فیس موبائل کی نذر کرکے جہاں اپنے آپ کو مشکلات سے دوچار کرتے ہیں وہیں اپنے تعلیمی کیرئیر کو بھی فضول مصروفیات میں الجھا کر تباہ کر بیٹھتے ہیں اور پھر پچھتاتے ہیں کوئی بھی ذی شعور انسان انٹرنیٹ کی افادیت سے انکار نہیں کر سکتا ہم بدقسمتی سے انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی اکثریت ایسی ہے جو اس کا بے جا فضول استعمال کرتے ہوئے مغربی تہذیب کی بے ہودہ دلدل میں غرق ہیں اپنی اسلامی ثقافت اور مہذب روایات کو پیش پشت ڈال چکے ہیں یہ وہ نوجوان طبقہ ہے جو انٹرنیٹ کے حقیقی استعمال سے قطعی طور پر ناواقف ہیں انٹرنیٹ کو ذریعہ آگاہی کے بجائے ذریعہ تباہی بنادیا گیا ہے وقت قیمتی دولت ہے جسے یہ نوجوان طبقہ غیراخلاقی اور غیر شرعی سرگرمیوں میں ضائع کر رہے ہیں معصوم اور سیدھے سادے لوگوں کو انٹر نیٹ پرورغالانا معیوب ہی نہیں ہے انٹرنیٹ کے ذریعے کبھی لڑکی بن کر تو کبھی لڑکا بن کر لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں حالانکہ ہمارا مذہب اسلام کسی کو دھوکہ دینے کی اجازت ہرگز نہیں دیتا انٹرنیٹ ایک خطرناک نشہ بن چکا ہے جیسے فیس بک اور یوٹیوب پر لوگ گھنٹوں گزارتے ہیں مگر عبادت کے لئے چند لمحے میسر نہیں یہ بد بختی نہیں تو اور کیا ہے ؟انٹرنیٹ کا ایک اور فضول استعمال طویل چیٹنگ ہے جو عموما بلامقصد اور بعض اوقات بے ہودہ ہوتی ہے انٹرنیٹ کے بے جا استعمال کے تباہ کن اثرات سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں اردگرد نظر دوڑا کر دیکھا جائے تو انسانوں کی اکثریت میں چڑچڑا پن پیدا ہو چکا ہے آنکھوں کی بینائی اور قوت حافظہ میں خطرناک حد تک کمی ہوچکی ہے اور دل کے امراض میں اضافہ ہو چکا ہے قابل اعتراض سائٹس ہماری نوجوان نسل کو منظم سازشوں کے ذریعے بے راہ روی اور بے غیرتی کی طرف لے جارہی ہیں موبائل سیٹ پر انٹرنیٹ کے استعمال سے سفری حادثات میں بھی اضافہ ہوچکا ہے یہ وہ تلخ حقائق ہیں جن کا اعتراف وہ لوگ بھی کرتے ہیں جونیٹ فوبیا کے مریض ہیں ایسے لوگوں کی زندگی انٹرنیٹ کے بغیر بے کیف اور بوجھل ہے وہ زندگی کا بیشتر حصہ محض ڈاؤن لوڈنگ میں گزاردیتے ہیں انٹرنیٹ کیفے جگہ جگہ نوجونوں کو اپنی طرف اس پیغام کے ساتھ کھینچ رہے ہیں کہ وہ یہاں سب کی نظروں سے اوجھل ہیں مگر یاد رکھیں سب کی نظروں سے اوجھل ہوسکتے ہیں مگر اللہ کی نظروں سے اوجھل نہیں ہو سکتے انتہائی ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کو اس مضر ہتھیار کے کم سے کم استعمال پر قائل کریں اور پڑھے لکھے عقلمند طلباء وطالبات اپنے روشن مستقبل کی خاطر اس سے گریز کریں اور اپنی صحت اور بجٹ کو محفوظ رکھیں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اوقات وایجادات کا صیح استعمال نصیب فرمائے آمین
222