اسلاموفوبیا‘لفظ اسلام اور یونانی لفظ فوبیا (ڈر جانا)کا مجموعہ ہے اس سے غیر مسلم اسلامی تہذیب سے ڈرنا اور مسلم گروہ سے ڈرنا‘مطلب لیتے ہیں اکثر غیر مسلموں کو اسلام کے خلاف بھڑکایاجاتا ہے اور اسلامی تعلیمات کے خلاف زہر افشانی کرکے ان کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرتیں پیدا کی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے دلوں میں اسلام کا خوف داخل ہوتا ہے اس کو اسلاموفوبیا کہا جاتا ہے اسلاموفوبیا کو ایک جرم تسلیم کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں اب ہر سال پندرہ مارچ کو اسلاموفوبیا ڈے منانے کو قراردارمنظور کی گئی ہے اسلاموفوبیا نسبتاََجدید لفظ ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کیلئے تیار کیا گیاہے جس کا مفہوم بے جا طرفداری‘نسلی امتیاز اور لڑائی کی آگ بھڑکانا طے کیا گیا ہے گیارہ ستمبر 2001کو وولڈ ٹریڈ سنٹر پر ڈرامائی حملوں کے بعد اس لفظ کا استعمال کثرت سے ہوا مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی یورپ کا ہمیشہ سے معمول رہا ہے مسلمانوں کا شاندار ماضی ان کے تعصب زدہ دل و دماغ میں کچوکے لگاتا رہتا ہے اور اپنا ذہنی خلفشار مسلمانوں اور اسلام کے خلاف زہر افشانی کرکے دورکرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں یورپ میں مساجد اور دیگر اسلامک سنٹرز پر حملہ آور ہو کر مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانا ہر روز کا معمول بن چکا ہے خواتین کا حجاب بھی کئی ممالک میں موضوع بحث بنا ہوا ہے مغرب اس دانشور یا نام نہاد مفکر کو سر آنکھوں میں بٹھاتا اور اعزازات سے نوازتا ہے جو اسلام اور اسلامی افکار کے خلاف زہر اگلتا ہے یورپ‘امریکہ‘بھارت سمیت دنیا بھر میں ایک منظم اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دین اسلام کے خلاف بے شمار نفرت انگیز تحریکیں سرگرم عمل ہیں ان کا سب سے بڑا نشانہ اسلام اور مسلمان ہی ہیں اینٹی مسلم فاؤنڈیشنز‘این جی اوز کو کئی ملین ڈالر کے فنڈ مہیا کئے جاتے ہیں ان تنظیموں کا مقصد عین اسلامی شریعہ کے خلاف مہم چلانا ہے نیوز‘میڈیا‘لٹریچر‘ویب سائٹس‘انٹرنیٹ‘سوشل میڈیا‘وڈیو گیمز سمیت تمام ذرائع ابلاغ کو اسلاموفوبیا کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے نائن الیون کے بعد سے بعض مغربی ممالک میں اسلام کی منفی انداز میں تشہیر کی جا رہی ہے مسلمانوں پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کیا جا رہا ہے اور امریکیوں کی اس حد تک ذہن سازی کی گئی کہ عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ امریکہ و یورپ میں مسلمان ہی دہشت گردی کی کاروائیوں کے مرتکب ہوتے ہیں در حقیقت اسلاموفوبیا صلیبی جنگوں کے دوران وجود میں آیا اور شاہ فلپ نے اسلاموفوبیا کے تحت تین لاکھ مسلمانوں کو اندلس سے دربدرکیا تھا اس لفظ کا باقاعدہ استعمال 1923میں دی جرنل آف تھیولوجیکل سٹڈیز کی ایک مضمون میں ہوتا تھا جارج بش کا یہ اعلان کہ ہم صلیبی جنگ کا آغاز کریں گے دراصل ان عزائم کا واضح اظہار تھا جن کے تحت صلیبی و صیہونی تحریکیں عرصہ درازسے دنیا کو مسلمانوں کے خلاف کوششوں میں مصروف تھیں گوانتانامواور ابو غریب جیل میں مقدس کتب کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرکے مسلمانوں کے جذبات کو جو ٹھیس پہنچائی گئی وہ اسلاموفوبیا ہی کا نتیجہ تھا پوری دنیا میں مسلمانوں کو خونخوار دہشت گرد اور امن عالم کیلئے خطرے کی علامت کے طور پر پیش کیا جانا گستاخانہ خاکوں کے خلاف پر امن احتجاج کرنے والے مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑ کران کے گرد گھیرا تنگ کیا جانا یہ سب اسلاموفوبیا نہیں تو اور کیا ہے؟یورپی معاشرے میں آزادی اظہار رائے کا حق ناقابل تنسیخ ہے لیکن اس کیلئے بھی حدودوقیود مقرر ہوتی ہیں اور ان سے تجاوز کرنے پر قانونی چارہ جوئی کی جا سکتی ہے مثلایورپ میں دوسری جنگ عظیم کے موقع پر یہودیوں کے قتل عام ہولو کاسٹ کے خلاف لکھنا اس کی تردید کونا اور تفصیلات شائع کرنا ایک جرم ہے ہولوکاسٹ کی
تردیدکرنے والے عالمی شہرت یافتہ مصنف ارنسٹ زنڈل کو 2005میں کینیڈا بدر کر دیا گیا تھا جرمنی میں اس پرچودہ الزامات عائد ہوئے اور پانچ برس قید کی سزا سنائی گئی برطانوی مورخ ڈیوڈاورنگ کو 2006میں آسٹریا کی عدالت نے دوسری جنگ عظیم کی تاریخ لکھنے کی پاداش میں تین سال قید کی سزا سنائی دوسری طرف اسلام اور مسلمانوں کے خلاف لکھنا ہرزہ سرائی کرنا توہین آمیز خاکے شائع کرنا جیسے اقدام آزادی اظہار کے نام پر بلا خوف تعزیر انجام دئے جاتے ہیں یہ مغرب کا دوہرا معیار نہیں تو اور کیا ہے؟ایک طرف یہ ممالک یہودیت و عسائیت کے تخفظ کا قانون بناتے ہیں اور دوسری جانب اسلام کے خلاف دشنام طرازی پر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں ایک طویل عرصے سے یورپی و امریکی اخبارات مسلمانوں کے خلاف من گھڑت کہانیاں شائع کر رہے ہیں کیونکہ اسلاموفوبیا مغرب میں خوف کی صنعت کا درجہ اختیار کر چکا ہے امریکی مصنف ناتھن لین کے مطابق امریکہ میں اسلاموفوبیا ملین ڈالر انڈسٹری کا روپ اختیار کر چکا ہے جس سے امریکہ‘برطانیہ اور اسرائیل کے سیاسی ومعاشی مفادات وابستہ ہیں گزشتہ امریکی صدارتی الیکشن میں اسلاموفوبیا مہم بھی چلائی گئی ہالی وڈ کی فلموں کی مثال ہمارے سامنے ہے جس میں عربوں اور مسلمانوں کو ہمیشہ منفی انداز میں بالخصوص ولن دہشت گرد اور خواتین کے خلاف جرائم میں ملوث دکھایا گیا نائن الیون کے بعد بڑی تعداد میں اسلام مخالف لڑیچر اور کتابیں منظر عام پر آئیں اس مقصد کیلئے کئی ویب سائٹس بھی چلائی جا رہی ہیں بعض وڈیو گیمز بھی اس حوالے سے کافی نمایاں ہیں مسلمانوں کے حوالے سے امریکہ ویورپ میں بھی یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ وہ امریکہ سمیت پوری دنیا میں شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں اس لئے اگست 2017میں 43امریکی ریاستوں میں شرعی نظام کے خاتمے کیلئے دو سوایک بل منظور کئے گئے اس وقت اسلاموفوبیاکو سیاست اور سیاسی پالیسیوں کا ایک اہم عنصر بنادیا گیا اور متعدد امریکی و یورپی سیاستدانوں نے اس چیز کی بنیاد پر ووٹ مانگا اس وقت مغرب اور عالم اسلام کے مابین جس قسم کی کشمکش پائی جاتی ہے اس کی ذمہ داری یورپی ممالک پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے ایک عرصے تک اسلام کے خلاف معاندانہ سرگرمیاں جاری رکھیں اس کے علاوہ وہ گلو بلائزیشن‘لبرل ازم‘سیکولر ازم اورمغرب کے دیگر مادی فلسفے بھی عالم اسلام کو کمزور کرنے پرایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں آئے روز یورپ کے کسی نہ کسی ملک میں توہین آمیز خاکے بھی تہذیبوں کے تصادم کی راہ کھول رہے ہیں لہذا ایسے میں اسلام مخالف مواد پر اسی نوعیت کی پابندی لگائی جانی چاہیے جیسے ہولوکاسٹ سے متعلق عائد ہے رحمت عالم حضرت محمد مصطفی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ”مسلمان آپس میں ایک جسم کی مانند ہیں اگر جسم کے کسی ایک حصے میں درد ہو تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے لہذا عالم اسلام کے حکمرانوں اور ارباب بست وکشاد کو اب خواب غفلت سے بیدار ہو کر دنیا بھر کے ممالک میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی روک تھام کیلئے موثر حکمت عملی اپنانا ہو گی۔
