118

اردو کودفتری زبان بنانے کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت/راجہ طاہر محمود

دنیا کے ہر ملک کی قومی زبان ہوتی ہے جس میں وہاں کے باشندے بات کرنے لکھنے اور پڑھنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں اگر پاکستان کی بات کی جائے تو ہم لوگ اردو میں بات کرنے اور اس میں خط و کتابت کرنے میں ناصرف شرم محسوس کرتے ہیں بلکہ بڑے لوگوں میں اردو بولنا معیوب سمجھا جاتا ہے ایسے لوگوں کے نزدیک اگر انگریزی میں بات نہ کی جائے تو ان کا سٹیٹس متاثر ہونے کا خطرہ ہوتا ہے لیکن ایسے لوگ شاید یہ نہیں جانتے کہ کواء جب ہنس کی چال چلا تھا تو اپنی چال بھول گیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد جب اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا تھا تو ضروری تھا کہ ہر شعبے میں اس کے نفاذ کو یقینی بنایا جاتا مگر اس دوران مختصر عرصے کے لئے آنے والی حکومتوں ،مارشلا ؤں ،اور نا اہل حکمرانوں نے اس اہم قومی مسئلے کو پس پشت ڈال دیا اگرچہ1973 کے آئین میں یہ شک موجود تھی کہ مختصر عرصے کے اندر ملک میں نفاذ اردو کو یقینی بنایا جائے گاتمام شعبوں میں اردو کو نفاز اولین ترجیح قرار دیا گیا تھا مگر بعد ازاں ہم اور ہمارے حکمران ایسے بھولے کے کچھ یاد ہی نہ رہا چلو خیر اب کئی سالوں بعد یہ کفر تو ٹوٹا کہ اردو بھی ہماری قومی زبان ہے اور اسے پورے ملک میں برابری کی سطح پر نافذ ہو نا چاہیے دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں ملک کے اندر اور ملک سے باہر ان کے سربراہان ناصر ف اپنی قومی زبان میں بات کرتے ہیں بلکہ دوسرے ممالک میں جب کھبی خطاب کرتے ہیں ہیں تو وہ بھی اپنی قومی زبانوں میں ہی کرتے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال چین اور ترکی ہیں ایسے حکمران جب بیرونی دوروں میں اپنی قومی زبان میں بات کرتے ہیں تو ان کو کھبی بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی بلکہ اپنی قومی زبان بولتے وقت ایک ان دیکھی خوشی ان کے چہروں پر نظر آ رہی ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا کہنے کو تو اردو ہماری قومی زبان ہے مگر ہم نے اس کا وہ حال کر دیا ہے کہ یہ بے چاری ہر طرف رلتی نظر آتی ہے ہمارے دفاتر میں ہماری اداروں میں یہاں تک کہ ہماری قومی اسمبلی میں بھی اس کی کوئی قدر نہیں ہمارے حکمران بے شک انگریزی کی ٹانگیں توڑ نے میں ماہر ہیں مگر پھر بھی وہ کوشش کرتے ہیں کہ غیروں کی زبان میں ہی بات کرکے اردو بولنے والوں کو زچ کریں ۔ہمارے حکمران طبقہ اردو بولنے سے شاید اس لئے کتراتا ہے کہ اس طرح ان کے تعلیم یافتہ ہونے پر کوئی شک نہ کرلے اس لئے وہ انگریزی کو اولین ترجیح دیتے ہیں اس اولین ترجیح میں انگریزی کی جو ہڈیا ں پسلیاں ٹوٹتی ہیں وہ بیچاری انگریزی ہی بتا سکتی ہے ۔ سپریم کورٹ میں زیر سماعت قومی زبان اردو کے نفاذ اور صوبائی زبانوں کی ترویج واشاعت کے ایک مقدمے میں عدالت کے استفسار پر وفاقی حکومت کی جانب سے عدالت کو بتایاگیا کہ وزیراعظم نے6 جولائی کو باقاعدہ ایک حکمنامہ جاری کیاہے جس کے تحت تمام سرکاری اداروں میں اردو کو فوری طور پر رائج کرنے کی ہدایت کی گئی ہے وفاقی سیکرٹری اطلاعات ونشریات کے سیکرٹری نے عدالت کو بتایا کہ حکمنامے کی رو سے اب صدر مملکت وزیراعظم وفاقی وزراء اور تمام سرکاری نمائندے ملک کے اندر اور باہر انگریزی کے بجائے اردو میں خطاب کریں گے وفاق کے تحت کام کرنے والے تمام سرکاری ونیم سرکاری ادارے تین ماہ کے اندر اپنی پالیسیوں اور قوانین کا اردو ترجمہ شائع کریں گے ہر طرح کے فارم انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی فراہم کئے جائیں گے تمام عوامی اہمیت کے مقامات پر رہنمائی کے لئے اردو میں بھی بورڈ آویزاں کئے جائیں گے وفاقی حکومت کے تحت کام کرنے والے تمام سرکاری ونیم سرکاری ادارے اپنی ویب سائٹ اردو میں منتقل کریں گے پورے ملک کی چھوٹی بڑی شاہراہوں کے کناروں پر رہنمائی کی غرض سے نصب سائن بورڈ اردو میں نصب کئے جائیں گے حکمنامے میں ہدایت کی گئی ہے کہ تمام سرکاری تقریبات کی کارروائی مرحلہ وار تین ماہ کے اندر اردو میں شروع کی جائے۔اگر ایسا ہو گیا تو یقیناًپاکستان کے عوام کی اکثریت کا ایک دیرینہ خواب اور ایک آئینی تقاضا پورا ہو جائے گا جس کی تمناء وہ کئی سالوں سے کر رہے تھے بے شک وطن عزیز کے تمام شعبوں میں اردو کو قومی زبان کی حیثیت سے اس کا حقیقی کردار دے دیاگیاہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اور اس کی بہتری کے لئے اردو فروغ زبان کو مرکزی حیثیت دی جائے تاکہ اس قومی مقصد کی بجا آوری کے راستے کی رکاوٹوں کو موثرطریقے سے جلد ازجلد دور کیا جاسکے اگرچہ وزیراعظم کے حکمنامے کے ذریعے آئینی تقاضاپورا ہواہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس حکمنامے پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنائے ہمارے اکابرین یقیناً اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ بیشتر ممالک کے سربراہان مملکت وحکومت ملاقاتوں اور تقریبات میں اپنی قومی زبان کوگفتگو کا وسیلہ بناتے ہیں حالانکہ وہ انگریزی سے نابلد نہیں ہوئے بلاشبہ انگریزی کو عالمی سطح پر رابطے کی ایک زبان سمجھا جاتاہے اس کے باوجود درجنوں ممالک میں ان کی حکومتی اور قومی شخصیات اپنی قومی زبان کو ہی اظہار کا وسیلہ بناتی ہیں اور اسے ہی دفتری زبان کے طور پر استعمال کیاجاتاہے پاکستان کی دفتری وعدالتی زبان کی حیثیت سے اردو کا نفاذکچھ مشکل نہیں ہے صرف اس کے لئے نیک نیتی سنجیدگی اور جذبے کی ضرورت ہے اگر ہم نے اب بھی اپنی قومی زبان کی قدر نہ کی تو ہم باقی دنیا سے بہت پیچھے رہ جائیں گے کیونکہ جو قومیں اپنی ثقافت ، اپنے کلچر اور خصوصا اپنی قومی زبان کی قدر نہیں کرتی باقی دنیا کیونکر اس قوم کی قدر کرئے گی۔نفاذ اردوکے لئے حکومت کی طرف سے کیے گئے اقدامات قابل تحسین ہیں جس کی ہر پاکستانی دل سے قدر کرتا ہے ۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں