طاہر یاسین طاہر
حکومتیں خواہ جمہوری ہوں یا آمرانہ، بادشاہت ہو،یاکوئی اور طرز حکمرانی، سب کی کچھ نہ کچھ اولین ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ جمہوری حکومت فی الواقع قائم ہو یا نام نہاد ہو، اس کی ذمہ داریاں بہرحال زیادہ ہو جاتی ہیں۔ جدید تاریخ میں عالم بشریت نے اپنے لئے جس نظام کو زیادہ سودمند سمجھا اسے جمہوریت ہی کہا جاتا ہے۔ اس نظام کی کئی خوبیاں گنوائی جاتی ہیں، اور بلاشبہ ہیں بھی، مگر ترقی یافتہ ممالک کی حد تک۔ ترقی یافتہ ممالک میں نظام تعلیم کیا ہے؟ کیسا ہے؟ وہاں صحت کی سہولیات کیا ہیں اور عام شہری انسہولیات سے کس قدر استفادہ کرتا ہے؟ یہ موضوع بھی بڑا دلچسپ ہے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی ترجیحات کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو تعلیم و صحت اور رہائش و روزگار کی سہولیات ترقی یافتہ ممالک کی ترجیح اول ہے، اپنے شہریوں کے لئے۔ ہمارے ہاں مگر صرف نعرے ہوتے ہیں۔ ایک ملک میں کئی طرح کے تعلیمی نظام اور کئی طرح کی “دینی تعلیم” کے نظام اور’’ منبع ہا‘‘ موجود ہیں۔ کسی حکومت کو مگر اس کی کبھی پروا نہیں رہی کہ یہ کسی جمہوری و غیر جمہوری کی ترجیحات اول نہیں رہی۔ ہر حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس نے ترقی کی نئی منازل طے کی ہیں، مگر ہر مطالعاتی دورہ حکومتوں کے دعوؤں کی نفی کرتا ہے۔ پاکستانی سماج کا بنیادی مسئلہ روزگار کے وسائل، تعلیم اور صحت و رہائش ہیں۔ سیاستدانوں کی بنیادی ترجیح اپنی اور اپنی اولادوں کی نشتیں محکم کرنا ہے۔ آمرانہ حکومتوں میں شامل کل مہروں کے منہ بھی جب سیاست کا ذائقہ لگا تو انہوں نے بھی اپنی اولادوں کو سیاست یا کاروبار کے میدان میں آزمایا۔حکومتوں کی نظر میں عوامی ترجیحات بس اس قدر ہیں کہ سرکاری سطح پہ مزدور کی کم از کم اجرت صرف پندرہ ہزار روپے مقرر ہوسکی اور سچ تو یہ ہے کہ کئی نجی و نیم سرکاری اداروں میں مزدور کو یہ اتنی اجرت بھی نہیں ملتی۔ گردوں کا کاروبار کرنے والے گروہ کھلے بندوں پھرتے ہیں اور انسانی سمگلروں کو ناموروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اشتہارات و القابات سے نہیں، اقدامات سے تبدیلی آتی ہے۔ نہ کوئی مرد حر تعلیم و صحت کے میدان میں تبدیلی لاسکا، نہ کوئی نام نہاد نظریاتی لیڈر اور نہ ہی کوئی خادم اعلی و ارفع۔ ترقی اسی صورت قبول ہوگی، جب حکمرانوں کے بچے بھی اسی سکول پڑھیں گے جہاں “بشیر ریڑھی والے” کا بچہ پڑھتا ہے، ترقی کا نعرہ اسی صورت قبول ہوگا، جب حکمران اور ان کے رشتہ دار بھی اسی سرکاری ہسپتال میں علاج کرائیں گے، جہاں سے عام آدمی کراتا ہے۔ ملک کی تمام ایلیٹ کلاس سر درد کے علاج کے لئے بھی امریکہ و برطانیہ چلی جاتی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار اس وقت تک نہیں بدلے گی، جب تک حکمران طبقہ ان ہسپتالوں میں اپنا علاج نہیں کرائے گا۔ ادویات کی قیمتیں اس وقت تک بڑھتی رہیں گی، جب تک فارما سوٹیکل انڈسٹری میں سیاستدانوں کو سپانسر کرنے والے صنعتکار موجود ہیں۔ اگرچہ مقامی سطح پر ادویات کی تیاری کے باجود ہر سال ادویات کو درآمد بھی کیا جاتا ہے۔ عام آدمی پرائیویٹ ہسپتال کا رخ نہیں کرتا۔ اس کی اولین ترجیح گھریلو ٹوٹکے ہوتے ہیں، بات بڑھ جائے تو بی ایچ یو، آر ایچ سی یا پھر ٹی ایچ کیو۔ حالات بہت نازک ہو جائیں تو پھر کسی ٹیچنگ ہسپتال میں چلا جاتا ہے۔ یہاں سوائے دھکوں کے اور ہے ہی کیا؟ ضروری ادویات تو ہسپتال سے ملتی ہی نہیں ہیں۔ اگر ملتی ہوں تو ہر بڑے ہسپتال کے باہر درجن بھر میڈیکل سٹورز کیوں کھلے ہوں۔؟
ہمیشہ کی طرح کسی اور موضوع پہ سوچ رہا تھا کہ نظر سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی اکتوبر کے مہینے میں افراط زر کے حوالے سے رپورٹ گزری۔ جس میں ادویات کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ بتایا گیا۔ کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی)کے مطابق افراط زر کی شرح سالانہ طور پر 3.8 فیصد سے کم ہوئی ہے، لیکن صرف ادویات میں افراط زر کی شرح میں 15 فیصد اضافہ دیکھا گیا جبکہ یہ اکتوبر 2016 میں 7.8 فیصد تھی۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق طبی ٹیسٹ کے افراط زر میں 6.23 فیصد جبکہ کلینک کی فیس میں 5.75 فیصد سالانہ اضافہ دیکھا گیا۔ ادویات کی مقامی پیداوار کے علاوہ پاکستان میں فارماسوٹیکل مصنوعات بڑی مقدار میں بیرونی ممالک سے درآمد بھی کی جاتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے کومٹریڈ (COMTRADE) ڈیٹابیس برائے بین الاقوامی تجارت کے مطابق پاکستان میں 2016 میں فارماسوٹیکل مصنوعات کی درآمدات 71 کروڑ 52 لاکھ 30 ہزار ڈالر رہی، جبکہ 2017-2016 کی برآمدات 22 کروڑ 50 لاکھ ڈالر رہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق بلڈ ٹیسٹ، یورین ٹیسٹ اور ایکسرے کی قیمتوں میں 5 سے 10 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔
حکومتیں اپنے حق میں ہونے والے سروے اور رپورٹس کی تو بڑی تشہیر کرتی ہیں، مگر جو رپورٹس حکومتی نعرے بازی سے موافقت نہ کھاتی ہوں، انہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ تلخ حقیقت یہی ہے کہ تعلیم و صحت اس سماج کے رہنماؤں کی ترجیح ہی نہیں۔ فارما سوٹیکل کمپنیاں ڈاکٹرز حضرات کو حصہ دیتی ہیں اور سٹورز والے بھی۔ پرائیویٹ ٹیسٹ لیبارٹریوں والے بھی ڈاکٹرز کو فی ٹیسٹ حصہ دیتے ہیں۔ میں کئی ایسے “ماہر ڈاکٹروں” کو جانتا ہوں، جنھیں ادویات بنانے والی کمپنیوں نے اپنے نمائندگان کے ذریعے گھر اور گاڑیاں لے کر دی ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ سادہ جواب یہی ہے کہ حکومتی نالائقیوں کے سبب کہ عام آدمی کا مفاد حکومتوں کی ترجیحِ اول نہیں ہے۔ اگرچہ بعض ڈاکٹرز حضرات بہت خدا ترس اور مریض پرور ہوتے ہیں مگر سارے نہیں۔ کیا ہمارے ملک کی ہر تیسری چوتھی گلی میں ایک عطائی نہیں بیٹھا ہوا؟ حکومت کو چاہیے کہ جان لیوا ادویات کی قیمتوں کو ہنگامی اقدامات کے ذریعے کم کرے، اس حوالے سے سخت مانیٹری سسٹم اپنائے نیز یہ کہ تمام اہم اور ضروری ادویات سرکاری ہسپتالوں میں موجود ہوں۔ اگر یونہی تعلیم و صحت کے اخراجات بڑھتے رہے تو معاشرہ ترقی کے بجائے تنزلی کا سفر ہی طے کرتا رہے گا۔ جو سماج بیماریوں سے لڑتا لڑتا تھک جائے، وہ ترقی کے خواب تو دیکھ سکتا ہے، مگر ترقی نہیں کرسکتا۔ ہمیں صحیح معنوں میں اگر ترقی کرنا ہے تو ہماری ترجیحات تعلیم و صحت میں بہتری ہونی چاہیے۔
96