نوجوان مصنف کی حال میں شائع ہونے والی پہلی کتاب کی رونمائی تقریب میں شرکت میں پہنچا تو ہال شرکاء سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا میں حسب عادت پچھلی ہی سیٹ پر بیٹھ گیا لیکن اچانک ہی تقریب کے میزبان پر نظر پڑی تو انہوں نے اگلی نشستوں پر بٹھا کر عزت افزائی فرمائی تقریب کا آغاز ہوچکا تھا ابھی چند ہی احباب نے سوشل میڈیا کے موجودہ دور میں کتاب کی اہمیت و افادیت کے بارے میں اظہار خیال اور مصنف کی کاوش پر خراج تحسین پیش کیا تھا کہ اب اسیٹج سیکرٹری نے نہایت مودبانہ انداز میں مصنف کے والد گرامی کو خطاب کی دعوت دی تو اسٹیج پر پہنچنے سے قبل ہی پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔
شرکاء استقبال کے لیے کھڑے ہوچکے تھے شاید شرکاء کی اکثریت ان کو جانتی ہوگی لیکن میرے لیے وہ ایک اجنبی تھے انکے والہانہ استقبال کی وجہ جاننے کا تجسس مجھ میں پیدا ہوچکا تھا لیکن انہوں نے اپنے خطاب کا آغاز ہی ایسے الفاظ میں کیا کہ پہلے جملے میں ہی ان کا تعارف سامنے آگیا جیسے ہی انہوں نے کہا کہ میرے لیے آج بڑی خوشی کا لمحہ ہے کہ سکول کے کلاس فورکا بیٹا لائبریری میں رکھنے اور پڑھنے والی کتاب کا لکھاری بن گیا ہے میں نے ساری زندگی طالبعلموں اور اہل علم اساتذہ کی صدق دل سے خدمت کی میں خود تو زیادہ پڑھا نہیں تھا لیکن تعلیمی ماحول میں رہنے کی وجہ سے علم سے محبت دل و دماغ میں رچ بس چکی تھی
اولاد کو اعلیٰ تعلیم دلانا میرا خواب تھا آج میں اللہ تعالی کا شکر بجا لاتے ہوئے بڑی فخر سے یہ کہہ سکتا ہوں میری اولاد اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی صف میں کھڑی ہوچکی ہے یہ میری کامیابی اور یہی میراخزانہ ہے دوران تقریر شرکاء کی جانب سے ملنے والی داد اور خوشی سے ان کی آنکھیں بھر چکی تھیں ان کے جذبات کی ترجمانی کرنے اور اولاد کی کامیابی کے بارے میں مزید جاننے کا میں خواہاں تھا تقریب کے اختتام پرجب تمام شرکاء تشریف لے جا چکے تو ان سے چند منٹ کی ملاقات کا وقت مانگا تو انہوں نے خوشی سے کہا کیوں نہیں جی میں حاضر ہوں
چونکہ حیران تھا کہ سکول کا کلاس فور کس طرح مہنگائی کے دور میں اولاد کو مہنگی تعلیم دلوا سکتا ہے یہی میرا ان سے سوال تھا میں پریشان تھا کہ شاید میرا اس طرح کا سوال ان کو معیوب لگے لیکن انہوں نے بڑی خندہ پیشانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا آپ کی بات بجا ہے کہ اولاد کو اعلیٰ تعلیم دلوانا انتہائی مشکل امر ہے لیکن میں نے بڑی کھوٹھی (شاندار گھر)کتوں اور بیلوں کا شوق نہیں کیا میں نے صرف اپنے خواب کو شرمندہ تعبیرکیا ہے یہ سن کر تعجب ہوا پوچھا محترم آپ کیا فرما رہے ہیں تو گویا ہوئے بے شک میں سکول میں کلاس فور تھا جس بناء پر ہی میرے میں علم دوستی کا شوق پروان چڑھا لیکن ہمارے پاس بچوں کی اعلیٰ تعلیم تو درکنار عام رسمی تعلیم کی بھی گنجائش نہیں تھی
تنخواہ سے مشکل سے گھریلو اخراجات برداشت ہورہے تھے چونکہ میرے داد جان انگریز دور میں فوج کے ملازم تھے ان کو دوران ملازمت سندھ میں اچھی خاصی زمین الاٹ ہوئی کچھ عرصہ تک ہمیں اس کا سالانہ ٹھیکہ معاوضہ ملتا رہا ہے لیکن بعد ازاں سندھ کے وڈیرے کی پشت پناہی پر جن لوگوں کو زمین ٹھیکے پر دی تھی انھوں نے قبضہ کرلیا توسالانہ معاوضہ دینے سے بھی انکاری ہوگیا تھا وہ علاقہ ہماری اپروچ اور رسائی سے دور تھا قبضہ واگزار کروانے پولیس اور کچہریوں کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے ہمارے پاس نقدی اور نہ ہی افرادی قوت تھی کہ ان کے ساتھ مقابلہ کرسکیں سوائے فروخت کرنے کے ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں تھا کزنوں کی باہمی راضی مندی و صلاح ومشورہ سے ہم نے اس وڈیرے کو زمین اچھی قیمت میں فروخت کرکے اپنے اپنے حصہ کی رقم تقسیم کرلی
رقم ملنے پرہم میاں بیوی نے مشورہ کیا کہ اس کو دیگر فضول امور میں خرچ کرنے کی بجائے بچوں کی تعلیم پر فوقیت دینی ہے اگر بچے پڑھ لکھ گئے تو اسی میں ہماری کامیابی ہے جب کہ میرے کزنوں کا فیصلہ ہمارے سے متضاد تھا ایک کزن نے بھی سب سے پہلے اپنے مکان کو پکا کروایا اور گھر میں اعلیٰ نسل (لڑائی والا) کتا لے آیا جس کے لیے ہفتہ میں ایک دفعہ گوشت جبکہ دودھ اور دیسی گھی روزمرہ کی اس کی خوراک تھی جب کہ دوسرے کزن نے بھی گھر کو شاندار بنایا اور ساتھ ہی اعلیٰ نسل (دوڑ میں حصہ لینے والے) بیلوں کی جوڑی خرید لائے ان کا بھی بیلوں کو اچھی خوراک گھی اور تیل وغیرہ کھلانا معمول تھا بدقسمتی سے ان کے بچے بھی اسی شوق میں مبتلاء ہوگئے
ان کی دیکھ بھال اور تماشوں میں شمولیت جانوروں اور کتوں کو لیجانا ان کی ذمہ داری بن گئی رفتہ رفتہ ان کی توجہ تعلیم سے کم ہو تی گئی حتیٰ کہ میٹرک امتحان میں ہی ناکام ٹھہرے تو تعلیم کو خیر آباد کہہ کر پوری طرح ان معاملات میں مصروف ہوگئے زمین کی رقم سے پانچ چھ سال اچھی طرح گزر گئے لیکن پھر آہستہ آہستہ ان کی معاشی حالت پتلی ہونا شروع ہوگئی انھوں نے دوستوں عزیز واقارب سے تھوڑا بہت قرض لینا شروع کردیا لیکن مقررہ وقت پر ادائیگی نہ ہونے سے دروازوں پر دستک روز کا معمول بن گیا جانور بھی فروخت ہوگئے پیسے غرق شوق ختم ہوگیا اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے میرے کزنوں کے بچے لوگوں کے پاس چند ہزاروں کی ملازمت اور مزدوری کرکے گھر کا نظام چلارہے ہیں لیکن الحمد اللہ مجھے آج فخر ہے میرے پیسے ضائع نہیں بلکہ مخفی خزانہ میں جمع ہوئے ہیں ریٹائرمنٹ کے موقع پر ملنے والی رقم سے بڑے بیٹے نے اپنا کاروبار شروع کیا دوسرے بیٹے دو سرکاری محکموں میں اعلٰی عہدوں پر فائز ہیں آج میں سرخرو ہوچکا ہوں
ان کی باتوں نے میرے سوئے ہوئے ضمیر کو جگا دیا لیکن بدقسمتی آج بھی ہمارا معاشرہ ایسے لوگوں سے بھرا پڑا ہوا ہے جو اپنی مخفی صلاحیتوں اور روپے پیسے کو اعلٰی مقصد میں بروئے کار لانے کی بجائے وقتی تسکین اور نمودو نمائش میں ضائع کررہے ہیں وقت بڑا قیمتی ہے اس کو مثبت امور میں سرانجام دینے میں ہی ہماری اور آنے والی نسلوں کی کامیابی کا راز پوشید ہے بقول شاعر
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات