354

کلرسیداں میں چوری وڈکیتی واردتوں میں اضافہ‘لمحہ فکریہ

ضلع راولپنڈی کی سب سے پر امن تحصیل کلر سیداں جہاں ہر چوراہا،ہر چوک، ہر گلی، ہر محلہ حتیٰ کہ ہر دیہات امن کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا۔یہاں کے باسی مہمان نواز تو تھے ہی مگر دوسرے علاقے کہ مہمان بھی اپنے آپ کو یہاں پر ہر لحاظ سے محفوظ سمجھتے تھے۔ چوری چکاری کا خوف نہ دیر سویر کا۔یہاں کے باسی رات کی تاریکی میں پیدل میلوں سفر طے کر جاتے۔ جب پورا ملک دھماکوں کی لپیٹ میں تھا۔تب بھی یہ علاقہ نہ صرف محفوظ تھا بلکہ چوری چکاری اور رہزنی جیسی وارداتوں سے بھی محفوظ تھا۔یہاں ہر طر ف چہل پہل تھی۔لوگ رات گئے تک بلا خوف خطر سفر کرتے۔حتیٰ کہ دوسرے علاقے کے لوگ یہاں سے گزرتے ہوئے اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے تھے۔یہاں کے گراؤنڈ آباد تھے۔دکانیں رات گئے تک کھلی رہتی۔آزاد کشمیر کے وہ مسافر جو رات کو راولپنڈی کے سفر پر نکلتے توکلر سیداں کی حدود میں داخل ہوتے ہی اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے اور یہاں کچھ وقت رک کر اپنی اگلی منزل کی طرف روانہ ہوتے۔ دھانگلی تا کلر سیداں سڑک کی خستہ حالی کے باوجود پوری رات ڈڈیال سے راولپنڈی گاڑیوں کا سفر بلا خوف و خطر جاری رہتا۔یہاں کے باسی اپنی گاڑیوں کو گھر کی چاردیواری سے کئی سو میٹر دور ویران جگہ پر بلا خوف پوری پوری رات کھڑا رکھتے تھے۔قتل و غارت، چوری چکاری رہزنی جیسے جرائم نہ ہونے کے برابر تھے۔گویا تحصیل کلر سیداں کا ہر گاؤں،ہر گلی،ہر محلہ اور ہر شاہراہ نہ صرف محفوظ تھی بلکہ امن کا گہوارہ تھی۔کسی شاہراہ پر پولیس کا گشت نہ ناکے کی نوبت تھی۔حتیٰ کہ انتظامی اداروں کو امن و امان کہ صورتحال کے لیے باہر نکلنے کی نوبت نہ آتی۔مگر بد قسمتی سے حالیہ کچھ عرصہ قبل تحصیل کلر سیداں کو نہ جانے کس کی نظر بد لگ گئی۔یہاں کا ہر گلی کوچہ اور ہر شاہراہ لٹیروں کی آماجگاہ بن گئی ہے۔چند دن پہلے کی بات ہے کہ چھے مسلح ڈاکودن کے اجالے میں سکیورٹی اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے کلر سیداں شہر میں داخل ہوئے جن کا ہدف پراچہ منی ایکسچینج تھا۔جہاں پر کیش شفٹ کی جا رہی تھی۔صرف10سیکنڈ کی دیری کی وجہ سے وہ اپنے ہدف تو نہ حاصل کر سکے مگر گولیوں کی تھر تھراہٹ سے پورے شہر کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا۔بہادر گارڈ کی بر وقت جوابی کاروائی اور حکمت عملی کے بدولت بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔اس دوران چندلوگ زخمی ہوئے مگر کوئی جانی نقصان نہ ہوا۔بھرے بازار میں مسلح ڈاکوؤں صحیح سلامت بھاگ نکلے مگر سکیورٹی اداروں پر چند سوالات ضرور چھوڑ گئے۔متعلقہ ادارے ہمیشہ کی طرح اپنی تفتیش کر رہے ہیں۔تحصیل کلر سیداں کی کوئی شاہراہ محفوظ نہیں رہی۔چوری چکاری اور رہزنی کی بات کی جائے تو کچھ ہی عرصہ میں درجنوں خاندان لٹیروں کی بھینٹ چڑھ گئے۔گھر تو گھر دکان، گاڑی،موٹر سائیکل تک محفو ظ نہیں۔ایک ایک دن میں کئی کئی وارداتیں اخبار کی زینت بنتی ہیں۔ اگر نماز کی ادائیگی میں مسجد گیا۔ واپسی پر موٹر سائیکل سے محروم ہوگیا۔تارکین وطن سالوں کی جمع شدہ پونچھی روات سے دھانگلی تک گنوا دیتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل ڈڈیال کی ایک فیملی جو اسلام آباد ایئر پورٹ سے کشمیر کی طرف سفر کر رہی تھی۔مانکیالہ کے مقام پر لٹیروں کے ہتھے چڑھ کر اپنی جمع شدہ پونجی گنوا بیٹھی۔کلر سیداں بازار کی بات کی جائے تو کئی لوگ دن دیہاڑے اپنے موٹر سائیکل گنوا بیٹھے۔کلر سیداں سے سر صوبہ شاہ تک کئی گھروں کا صفایا کر دیا گیا۔جس کا کسی کو آج تک کانوں کان خبر نہ ہونے دی گئی۔قتل و غارت اور ڈاکہ زنی جیسی وارداتوں میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔جس کی سب سے بڑی وجہ لٹیروں اور ڈاکوؤں کا پولیس اور متعلقہ ادارو ں کے ہتھے نہ چڑھنا،یا سزا سے بچ کر نکلنا ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ جب بھی کوئی واردات رونما ہوتی ہے تو پولیس یا تو بیس منٹ پہلے وہاں کا چکر لگا چکی ہوتی ہے یا واردات کے گھنٹہ بعد وارد ہوتی ہے۔تب تک مجرم اپنے محفوظ مقام تک پہنچ چکے ہوتے ہیں۔تحصیل کلر سیداں میں بڑھتی ہوئی رہزنی اور چوری کی واراتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے۔جو کہ کلر سیداں پو لیس اور انتظامی اداروں پر بدنما دھبہ ظاہر کرتی ہے۔مہنگائی کی چکی میں پسی ہوئی عوام کو لٹیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔کلر سیداں کے باسیوں کی اعلیٰ عہدیداروں سے اپیل ہے کہ بڑھتے ہوئے جرائم کو بر وقت نکیل ڈالیں۔ کہیں یہ پرامن علاقہ کراچی کا لیاری نہ بن جائے۔اور اس وقت ہم منہ تکتے رہ جائیں۔لحاظہ ہر ممکن کو شش کر کے علاقے کا امن بحال رکھا
جائے۔متعلقہ ادارے عوام کے ساتھ مل کر سکیورٹی پلان تشکیل دیں تا کہ اس ناسور کو جڑسے ختم کیا جائے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں