راولپنڈی (نمائندہ آصف شاہ نوید ملک نمائندگان پنڈی پوسٹ )
سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر راولپنڈی کے شہریوں کو پینے کے پانی کی فراہمی کے لیے شروع کیا گیا ددہوچھہ ڈیم کا منصوبہ متاثرین کی شدید مزاحمت اور مسلسل احتجاج کے باعث مشکلات کا شکار ہوگیا۔ صوبائی حکومت پنجاب کی جانب سے منصوبے پر اربوں روپے کی لاگت آنے کے باوجود بالآخر ضلعی انتظامیہ نے ڈیم کے بند کو توڑنے کا عمل شروع کردیا ہے۔
ذرائع کے مطابق، سپریم کورٹ کے احکامات پر پنجاب حکومت نے راولپنڈی کے شہریوں کو پانی فراہم کرنے کے لیے ددہوچھہ ڈیم کی تعمیر کا فیصلہ کیا تھا۔ اس منصوبے کا ٹھیکہ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کو دیا گیا جس نے عملی طور پر نالہ لنگ پر بند تعمیر کر کے پانی کا ذخیرہ کرنا شروع کردیا۔
تاہم مقامی آبادی خصوصاً اہلیان خانپور اور بروالہ کو نہ تو اراضی کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق معاوضے دیے گئے اور نہ ہی انتظامیہ کی جانب سے پیشگی اطلاع دی گئی کہ ان کی زمینوں پر پانی جمع کیا جا رہا ہے۔ اچانک ڈیم میں پانی بھرنے کی وجہ سے مقامی لوگوں کی زرعی زمینیں زیر آب آ گئیں اور متعدد مال مویشی بھی پانی میں بہہ جانے کی اطلاعات سامنے آئیں۔
صورتحال کے خلاف متاثرین نے کلرسیداں روڈ بلاک کر کے شدید احتجاج کیا تھا، تاہم اس وقت ضلعی انتظامیہ نے کوئی عملی اقدام نہ کیا۔
گزشتہ روز ہونے والی موسلادھار بارشوں کی وجہ سے نالہ لنگ میں طغیانی آگئی جس سے ڈیم میں پانی کی سطح مزید بلند ہونے لگی۔ ممکنہ جانی نقصان اور مزید تباہی کے خدشے کے پیش نظر راولپنڈی انتظامیہ حرکت میں آئی اور ریسکیو 1122 کی ٹیموں کو فوری طور پر متاثرہ علاقے میں روانہ کردیا۔ ریسکیو اہلکاروں کے پاس لائف جیکٹس، کشتیاں اور ریسکیو کے دیگر آلات موجود تھے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹا جا سکے۔
انتظامیہ نے متاثرہ افراد کی سلامتی کو یقینی بنانے اور مزید نقصان کے پیش نظر ہیوی مشینری لگا کر ڈیم کے بند کو توڑنے کا عمل شروع کردیا۔ اربوں روپے لاگت سے تعمیر کیا گیا یہ بند توڑنے کی کارروائی کئی گھنٹوں تک جاری رہی۔
متاثرہ مقامی افراد نے بند توڑنے کے اقدام پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ بالآخر ان کی آواز سنی گئی ہے۔ تاہم دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر بننے والا یہ منصوبہ اب غیریقینی صورت حال کا شکار ہو گیا ہے اور اس کی بروقت تکمیل خطرے میں پڑ گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق ڈیم کی تعمیر کا مستقبل کیا ہو گا اور متاثرین کے معاوضوں کی ادائیگی کب اور کیسے ہو گی، اس حوالے سے صوبائی حکومت کی طرف سے کوئی واضح لائحہ عمل سامنے نہیں آسکا