35

اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ اور سفیر ایران سے ملاقات

(عبدالحنان راجہ)

جنگیں کبھی جغرافیہ بدلنے کا سبب بنتی ہیں تو کبھی نظریات تبدیلی کا۔ پاک بھارت اور ایران اسرائیل جنگ نے جغرافیے تو نہیں بدلے مگر عشروں کے نفسیاتی، عسکری، اور سفارتی نظریات کو ضرور بدلا۔ پاکستان نے دیو ہیکل بھارت کو چند گھنٹوں میں شکست سے دوچار کر کے نئی جنگی تاریخ رقم کی، کہ پہلی بار جدید ترین فضائی طاقت، ناقابل شکست دفاعی نظام ، تین بڑی طاقتوں سمیت اسرائیل کی مکمل پشت پناہی اور 86 بلین ڈالر کے خطیر دفاعی بجٹ والے ملک کو چند گھنٹوں میں سیز فائر کی بھیک مانگنا پڑی۔ نہ صرف خطہ کے بلکہ پوری دنیا کے ممالک کے عوام کے ذہنوں پر پڑی گرد صاف ہوئی تو توپوں کے زنگ بھی اترے اور ذہنوں کی صفائی بھی ہوئی۔ اور دنیا بھر بالخصوص بعض مسلم ممالک جو باوجود بھارت کی کشمیر میں کھلی بربریت اور آئے روز پاکستان سے جنگی ماحول بنائے رکھنے کے، غیر مسلم ملک کی جنگی طاقت اور معاشی قوت سے مرعوب تھے کی غلط فہمی بھی دور ہوئی۔ نہ صرف دنیا پر پاکستان کی عسکری صلاحیتیں آشکارا ہوئیں بلکہ اب بفضل تعالی سفارتی محاذ پر بھی نیا پاکستان ابھر کر سامنے ا رہا ہے کہ ایک طرف امریکہ کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی تو دوسری طرف روس کی سرد مہری نہ صرف ختم بلکہ روس نے پاکستان اور چین سے ملکر ایران اسرائیل جنگ کے خاتمہ کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے لیے مسودہ تیار کیا۔ دشمنوں کی جھاگ تو پہلے ہی بیٹھ چکی تھیں پھر یکا یک سفارت کاری کے افق پر چمکتے پاکستان نے انکی راتوں کی نیندیں بھی حرام کر دیں۔ بھارت کہ جسے اس خطہ میں امریکی مفادات کا نگہبان بننا اور چین کے مدمقابل کھڑا کیا جانا تھا ایک ہی جھٹکے میں ایسا زمیں بوس ہوا کہ بڑی طاقتوں ہی کیا عوام کی نظروں سے ہی گر گیا۔ ہاں مگر اسرائیل کی بھارت کا گٹھ جوڑ پختہ تر ہوا اور ساجھے داری بھی۔کہ ہر دو طاقتور پاکستان اور جوہری ایران کے وجود کے خلاف۔ ہر دو جنگوں نے کم و بیش 55 سالوں پر محیط اسرائیل و بھارت کا ناقابل شکست ہونے کا بھرم توڑا۔ اس میں کیا شک ہے کہ بھارت و اسرائیل کو مدتوں سے عالمی طاقتیں پال پوس رہی تھیں۔ کہ ایک کے ذمہ بے جان مشرق وسطی اور دوسرے نے پاکستان و چین کو قابو میں رکھنا تھا۔ اس کے لیے انہیں ہر قسم کی ٹیکنالوجی فراہم کی گئی اور وہ تمام سہولیات بھی جو جوہری طاقت بننے کے لیے ضروری۔ مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ اسرائیل نے بھی علم، تحقیق اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں اپنی مہارتوں کا لوہا منوایا اور دنیا بھر کی معیشت میں اپنا مقام پیدا کیا کہ یہ ان کی علم دوستی اور اپنی ریاست کے لیے وفاداری کا عملی نمونہ۔ پاکستان اور ایران دشمنی کے لیے ہی تو اقوام متحدہ تک نے انہیں کھلی چھوٹ دےرکھی ہے۔ مگر غلطی ان سے یہ ہوئی کہ وہ نہتوں پر مشق ستم کے عادی تھے اور اسی زعم میں حملوں نے ان کا بنا بنایا بھرم تڑوا دیا۔ اسرائیل کو البتہ ایران پر فضائی برتری بھی تھی اور ایران کے اندر اس کا مضبوط خفیہ نیٹ ورک بھی اور ہر دو محاذ پر کمزوری نے ایران کا نقصان کئی چند کیا. مگر ایرانی قوم کے عزم، حوصلے، قوت ایمانی اور قومی تفاخر نے باوجود بھاری نقصان کے انہیں سرنگوں نہ ہونے دیا اور جنگ اسرائیل کی پسپائی کے ساتھ ختم ہوئی۔ ہر دو جنگوں نے 1945 میں امریکہ کے شہر سان فرانسسکو میں ہونے والے اس چارٹر کو بھی رعونت اور تکبر کی نذر کیا کہ جس میں اقوام عالم نے ہر ریاست کو خود مختاری کے تحفظ کی ضمانت دی تھی۔ مگر اب جدید دنیا میں طاقت کی بنیاد پر ریاستوں کو روند ڈالنے کا رواج چل نکلا۔ جو انسانیت کے لیے خطرہ ۔ طاقتوروں کے کردار نے جب امن کی فاختہ کو اقوام متحدہ کے صدر دروازے کے سامنے ذبح کر ہی دیا ہے تو اب امن کی بولی صرف کمزوروں اور محکوموں کے لیے ہی رہ گئی اور طاقتور غنڈوں کے رحم و کرم پر ایران سے اظہار یک جہتی اور ایرانی قوم کی جرات و استقامت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے برادرم امجد حسین کی معیت میں سفیر ایران رضا امیری مقدم سے ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے پاکستان اور پاکستانی عوام کی ایرانیوں کے لیے محبت کے جذبات کو عقیدت سے پیش کیا۔ یادگار اسلاف پیر محمود احمد عباسی، صاحبزادہ منیر عالم ہزاروی، سید ضمیر حسین شاہ، پیر عظمت اللہ سلطان، سابق ایم پی اے محمد وقاص خان بھی ہم رکاب و مجلس نشیں تھے۔ احباب نے مبارک باد پیش کی تو سفیر محترم کے متشکرانہ کلمات نے دلوں میں محبت اور جذبوں کی حرارت بڑھائی۔ اہم موقع پر رگ صحافت نہ پھڑکے ممکن نہیں۔ ” سفیر محترم یقینا سفارتی باریکیوں سے آشنا اور نہایت محتاط اور نپے تلے الفاظ میں ایران اسرائیل تنازعہ، مسئلہ فلسطین پر عالمی و مسلم امہ کی ذمہ داری، پاکستان، ایران اور ایران بھارت تعلقات کی تزویراتی نوعیت بارے اظہار خیال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران اب پرامن جوہری پروگرام سے کیسے دستبردار ہو سکتا ہے کہ جس کے لیے اس نے اتنی شہادتیں پیش کیں۔ ہم نے بیرونی تسلط کو پہلے کبھی قبول کیا اور نہ اب کریں گے۔ ایران مذاکرات اور بات چیت کا حامی رہا مگر کسی جارح کے مسلط کردہ فیصلے قابل قبول نہیں۔ اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم ٹوٹ چکا اور مسئلہ فلسطین اب زیادہ قوت سے عالمی منظر نامہ میں ابھرے گا۔ اس جنگ نے امت مسلمہ کو متحد ہونے کا طاقتور جواز فراہم کیا ہے تا کہ کسی مسلم ریاست کی خود مختاری کو چیلنج نہ کیا جا سکے۔ ایران میں رجیم تبدیلی اس لیے بھی ممکن نہیں کہ راہبر انقلاب کی زیر قیادت ایرانی قوم متحد اور اس جنگ نے سیاسی اختلاف کو بھی پس پشت ڈال دیا۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ریاستوں کے تعلقات مفادات کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور کوئی ملک سفارتی تنہائی کا شکار نہیں ہونا چاہتا مگر پاکستان نہ صرف ہمارا ہمسایہ بلکہ برادر اسلامی ملک ہے اور ان حالات میں پاکستان کے واضح اور جرات مندانہ موقف نے ہمارے دل موہ لیے۔ ” دو روز قبل آیت اللہ خامنہ ای کا قوم سے خطاب بھی مسلم امہ کے جذبوں کا عکاس تھا کہ جس میں انہوں نے مسلکی و گروہی تقسیم کو مسترد کیا۔ پاک بھارت اور ایران اسرائیل جنگ نے عشروں کی غلط فہمیاں اگر دور کر ہی دی ہیں تو مسلم ممالک کو بھی نفرت، مفادات اور اختلافات کے کانٹے سمیٹنا اور محبت، رواداری اور اتحاد کے پھول چننا ہوں گے۔ اپنوں کے لیے عقیدت احترام اور محبت کے جذبات تو کفر کے لیے بنیان مرصوص نہ جانے کب امت اقبال کے اس شعر کی مصداق بنے گی !!!

ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم ،
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں