آئن سٹائن کا دماغ چوری کیوں ہوا؟

دنیا کے ذہین ترین انسان”البرٹ آئن سٹائن“ بچپن میں دماغی طور پر کمزور سمجھا جاتا تھا کیونکہ وہ نو سال کی عمر تک بولنے کی صلاحیت سے محروم رہا۔ آئن سٹائن ایک ذہنی بیماری”آٹزم“ کا شکار تھا جس کی وجہ سے وہ ہر وقت اپنے خیالات کی دنیا میں کھویا رہتا اور کسی کی مداخلت پسند نہیں کرتا تھا۔ ایک روز کھانے کی میز پر بیٹھے جب اس کی ماں نے اسے سوپ دیا تو اس نے پہلی بار بولتے ہوئے کہا”سوپ بہت گرم ہے!“یہ اس کی زندگی کا پہلا جملہ تھا۔ ماں نے حیرت سے پوچھا کہ بیٹے تم نے پہلے کیوں نہیں بولا؟ آئن سٹائن نے معصومانہ انداز میں جواب دیا”اس سے پہلے سب کچھ نارمل تھا اس لیے بولنے کی ضرورت نہیں تھی۔“ اس جملے نے نہ صرف اس کی ذہانت کا اظہار کیا بلکہ آنے والے وقتوں میں ایک عظیم سائنس دان کی جھلک بھی دکھا دی۔


آئن سٹائن کی ذہنی نشوونما وقت کے ساتھ غیر معمولی رفتار سے بڑھتی گئی اور وہ بیسویں صدی کا سب سے بڑا طبیعات دان بن گیا۔ اس نے کائنات کے ایسے راز آشکار کیے جنہوں نے انسان کی سوچ کا دھارا بدل دیا لیکن شاید اسے اندازہ تھا کہ اس کے مرنے کے بعد سائنس دان اس کے دماغ پر تحقیق کرنا چاہیں گے اسی لیے اس نے وصیت کی تھی کہ اس کے جسم یا دماغ کو سائنسی تجربات کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔مگر تقدیر کو کچھ اور منظور تھا۔ 1955ء میں آئن سٹائن کے انتقال کے بعد پوسٹ مارٹم کرنے والے پیتھالوجسٹ ”ڈاکٹر تھامس ہاروے“ نے اس کی وصیت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس کا دماغ چوری کر لیا۔ ہاروے نے دماغ کے 240 ٹکڑے کیے اور انہیں مختلف جارز میں محفوظ کر کے اپنے گھر کے تہہ خانے میں چالیس سال تک چھپائے رکھا۔ اسے امید تھی کہ وہ آئن سٹائن کے دماغ پر ریسرچ کر کے دنیا میں انقلاب برپا کرے گا مگر چونکہ وہ نیورولوجی کا ماہر نہیں تھا اس لیے کامیاب نہ ہو سکا۔

نوکری سے برخاستگی اور بدنامی کے باوجود اس نے دماغ واپس نہیں کیا۔ اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل 2007ء میں اس نے آئن سٹائن کے دماغ کے محفوظ حصے واپس کر دیئے۔ آج اس کے 46 ٹکڑے فلاڈیلفیا کے میوزیم میں نمائش کے لیے موجود ہیں۔
یہ واقعہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ انسانی دماغ کی قدر و قیمت محض اس کی ساخت میں نہیں بلکہ اس کے استعمال میں پوشیدہ ہے۔ یہی وہ آلہ ہے جو انسان کو خواب دیکھنا، جدوجہد کرنا اور دنیا کو بدلنا سکھاتا ہے۔دماغ کی اسی اہمیت کے پیش نظر ہر سال 10 اکتوبر کو دنیا بھر میں دماغی صحت کا عالمی دن (World Mental Health Day) منایا جاتا ہے۔

اس دن کا مقصد لوگوں میں ذہنی صحت کے بارے میں شعور پیدا کرنا، ذہنی بیماریوں کے علاج کو عام کرنا اور متاثرہ افراد کے لیے ہمدردی کا پیغام دینا ہے۔ اس سال کا عالمی موضوع ہے”خدمات تک رسائی۔آفات اور ہنگامی حالات میں ذہنی صحت“۔عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً ایک ارب افراد کسی نہ کسی دماغی یا نفسیاتی مرض میں مبتلا ہیں۔ ان میں سب سے عام بیماری”ڈپریشن“ ہے۔ ہر پانچ میں سے ایک شخص اس عارضے کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق صرف پاکستان میں تقریباًدو کروڑ چالیس لاکھ (24 ملین) افراد نفسیاتی یا ذہنی مسائل سے دوچار ہیں،ان میں نوجوانوں اور خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔مہنگائی، بے روزگاری، گھریلو دباؤ، معاشرتی عدم برداشت اور مستقبل کے خدشات نے ہمارے معاشرے میں ذہنی تناؤ کو عام کر دیا ہے۔ بہت سے لوگ خاموشی سے اس اذیت میں مبتلا ہیں لیکن علاج یا مشورے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ انہیں ”پاگل“کہلائے جانے کا خوف ہوتا ہے۔ یہی خوف ہمارے سماجی رویوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔


ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت عوامی سطح پر دماغی صحت سے متعلق آگاہی مہمات شروع کرے، تعلیمی اداروں میں کاؤنسلنگ سینٹرز قائم کیے جائیں اور میڈیا کے ذریعے اس پیغام کو عام کیا جائے کیونکہ ذہنی صحت جسمانی صحت جتنی ہی ضروری ہے۔آئن سٹائن نے کہا تھا کہ”تخیل علم سے زیادہ اہم ہے“ مگر تخیل تبھی کارآمد ہے جب دماغ صحت مند ہو۔ اس لیے آئیے دماغ کے عالمی دن کے موقع پر عہد کریں کہ ہم اپنے ذہن، اپنی سوچ اور اپنے احساسات کی حفاظت کریں گے کیونکہ ایک صحت مند دماغ ہی ایک روشن معاشرے کی ضمانت ہے۔

ڈاکٹر جمشید نظر