33

پاکستان سے غیرقانونی ہجرت، ایک قومی المیہ

پاکستان میں ”ڈنکی کلچر“ کا فروغ ایک بڑھتا ہوا قومی بحران ہے، جو نہ صرف انسانی جانوں کے زیاں کا سبب بن رہا ہے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے امیج کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ نوجوان بہتر مستقبل، روزگار، اور سہولتوں کی تلاش میں جان ہتھیلی پر رکھ کر غیر قانونی راستے اختیار کرتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق۔ہر سال ضلع راولپنڈی بالخصوص گوجر خان‘ کلرسیداں اور کہوٹہ کے سینکڑوں نوجوانوں سمیت 40,000 سے 50,000 پاکستانی غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ان میں سے 10,000 سے زائد افراد کو مختلف ملکوں کی سرحدوں پر گرفتار کیا جاتا ہے۔تقریباً 500 سے 700 افراد ہر سال راستے میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔ یہ تعداد غیر مصدقہ ذرائع کے مطابق اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ بہت سے واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔

لیبیا‘ ترکی‘ ایران، یونان، اٹلی اور بحیرہ روم کے ذریعے یورپ پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔خشکی، دریا، اور سمندری راستے سبھی انتہائی خطرناک اور غیر یقینی ہوتے ہیں۔سب سے خطرناک راستہ لیبیا سے بحیرہ روم کے ذریعے اٹلی کا سفر ہے، جہاں کئی کشتی حادثات ہو چکے ہیں۔ملک میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔معاشی بدحالی اور مہنگائی کی وجہ سے نوجوان بیرون ملک کمانا چاہتے ہیں۔بیرون ملک جانے والے رشتہ داروں کی کامیابیوں کو دیکھ کر نوجوانوں پر بھی دباؤ بڑھتا ہے۔وہ اپنے ملک میں محنت کرنے سے جی چراتے ہیں اور بیرون ممالک جا کر ہر جائز و ناجائز کام کو ترجیح دیتے ہیں اور بدقسمتی سے انسانی اسمگلرز کے ہتھے چرھ جاتے ہیں جو ان نوجوانوں کو یورپ کی شاہانہ زندگی کے خواب دکھاتے ہیں جو کہ حقیقت سے بہت دور ہوتی ہے۔

امیگریشن آفس، ایف آئی اے، اور پاسپورٹ آفس میں مبینہ کرپشن عام ہے۔کئی سرکاری اہلکار رشوت لے کر جعلی ویزے، پاسپورٹ یا امیگریشن کلیئرنس دیتے ہیں۔ایئرپورٹ پرامیگریشن اہلکار بھی بعض اوقات انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس سے جُڑے ہوتے ہیں۔پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں انسانی اسمگلرز اور غیر رجسٹرڈ ٹریول ایجنٹس ہیں جو مختلف غیر ملکی ایجنٹس سے رابطوں میں ہیں اور پیسے لے کر نوجوانوں کو غیر قانونی راستوں سے بھیجتے ہیں۔یہ ایجنٹس ایک فرد سے 20 سے 45 لاکھ روپے تک وصول کر کے نوجوانوں کو جعلی ویزے، جعلی ورک پرمٹس اور جھوٹے خواب بیچ رہے ہیں۔دوسری جانب یورپ اور دیگر ممالک پاکستان پر زور دے رہے ہیں کہ وہ انسانی اسمگلنگ پر قابو پائے۔کئی ملکوں نے پاکستان کے لیے ویزا پالیسیاں سخت کر دی ہیں۔

پاکستان سے باہر جانے والے مسافروں کو سخت چیکنگ، طویل انٹرویوز اور بعض اوقات بے عزتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہ صورتحال پاکستان کے امیج کو مسلسل نقصان پہنچا رہی ہے۔ حکومتی سطح پر اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔کوئی واضح قومی پالیسی یا ایکشن پلان نظر نہیں آتا۔کئی بار واقعات کے بعد وقتی اقدامات کیے جاتے ہیں، لیکن مستقل حل پر توجہ نہیں دی جاتی۔امیگریشن کے اداروں میں شفافیت، نگرانی، اور سزا کا نظام نافذ کیا جائے۔ایجنٹس کی رجسٹریشن اور مانیٹرنگ کا موثر سسٹم بنایا جائے۔نوجوانوں کو اسکولوں، کالجوں اور میڈیا کے ذریعے یہ بتایا جائے کہ ”ڈنکی” زندگی بچانے والا نہیں، برباد کرنے والا راستہ ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ نوجوانوں کے لیے ہنر سکھانے، چھوٹے کاروبار، اور مقامی روزگار کے منصوبے شروع کرے۔اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن کو فعال بنایا جائے تاکہ لوگ قانونی طریقے سے بیرون ملک کام پر جا سکیں۔یورپی یونین، برطانیہ، اور خلیجی ممالک سے لیگل ورک ویزا اسکیمز پر معاہدے کیے جائیں۔انسانی اسمگلنگ کے خلاف مشترکہ ٹاسک فورسز قائم کی جائے۔ڈنکی لگانا نہ صرف ایک غلط راستہ ہے بلکہ ایک ایسا راستہ ہے جو اکثر موت، ذلت اور ناکامی پر ختم ہوتا ہے۔ ہمیں ایک ایسا معاشرہ بنانا ہوگا جہاں کوئی بھی نوجوان یہ خطرناک راستہ اختیار کرنے پر مجبور نہ ہو۔ حکومت، ادارے، میڈیا، اور والدین سب کو مل کر یہ پیغام دینا ہوگا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں