کلرسیداں بدل گیا ہے اور گاوں سے شہر کی صورت میں ڈھل گیا ہے مگر مین چوک میں موجود اخبار فروش گلزار صاحب کا سٹال آج بھی وہیں ہے جو ان کے ورثاء کو وراثت میں ملا ہے اور اس سٹال کو چلاتے چلاتے ان کے بالوں میں بھی سفیدی اتر آئی ہے اس سٹال پر گلزار صاحب کو دیکھا پھر ان کے فرزند طارق صاحب کو دیکھا جو بعد ازاں بیرون ملک مقیم ہوئے , طارق صاحب کے بھتیجے ندیم صاحب کے ساتھ یہ تصویر بنائی یعنی کم از کم تیسری نسل کو تو میں جانتا ہوں جو اسی ٹھئیے پراخبار فروشی کرتی پائی گئی اسی کے بلکل سامنے سٹال ھارون صاحب کا ہےجو ندیم کے کزن ہیں وہ بھی یہی روزگار کرتے ہیں شاید اخبار فروشی کی جرات کرنے والی یہ آخری نسل ہو کہ اب اخبار پڑھنے والوں کی آخری پیڑھی کے بچے کھچے بزرگان کی بھی شام ہونے کو ہے اکثریت کی زندگیوں کے سورج موت کے سائے میں ڈھل چکے , ایک دور تھا جب اخبارات رسائل جرائد میگزین ضمیمے سینکڑوں کی تعداد میں فروخت ہوتے تھے علی الصبح اخبارات کے بنڈل اخبار مارکیٹ سے بسوں لاریوں پر لادھ کر لائے جاتے اور گاوں قصبوں کے بک سٹالز تک پہنچتے ہاکر دوکانوں اور گھروں تک اخبارات پہنچایا کرتے تھے صبح دن اور شام کے اوقات میں اخبارات پڑھنے والے بدلتے رہتے کہ ملکی خبروں حالات حاضرہ علم و ادب سائنس کھیل اور کھلاڑی فن اور فنکار کی معلومات تک رسائی کے زرائع ابلاغ میں اخبارات و رسائل صف اول میں نظر آتے , ہفتہ وار شائع ہونے والا مشہور میگزین اخبار جہاں جوان دلوں کی دھڑکن ہوا کرتا تھا تو ماہانہ خواتین ڈائجسٹ کو خواتین میں طلائی زیورات جیسی مقبولیت حاصل تھی , سسپنس اور حکایت ڈائجسٹ پختہ ذہن اور ادھیڑ عمروں کی بغلوں میں لگے گھوما کرتے تھے بچے من کے سچے پھول اور کلیاں نونہال بچوں کی دنیا جیسے میگزین باقاعدگی سےپڑھا کرتے تھے , بک سٹالز شام و سحر قارئین کو اپنے سحر میں جکڑے رہتے ہمہ وقت سٹالز پر گہما گہمی رہتی میٹرک ایف اے , بی اے امتحانات کے نتائج کا گزٹ سٹالز پر پہنچنے سے پہلے چوک جام ہوجاتا, اخبار فروشی کے حوالے سے پاءفضل کریم کے سٹال کا ذکر سنا ہے کہ شاید یہ سب سے پہلے اس کام میں ملوث ہوئے تاہم اپنی آنکھوں سے ان دو سٹالز کو بچپن سے دیکھتا آ رہا ہوں ایک گراونڈ کی بیرونی دیوار کے ساتھ تو ایک اس کے سامنے کریم الدین ہوٹل کے باہر اور بھی کئی ایک سٹالز یاد پڑتے ہیں مگر انہیں دیگر کاروباروں کے ساتھ اضافی کاروبار کے طور پر چلایا جاتا تھا کلی ٹھیہ اخبار فروشی گلزار صاحب کا ہی یاد پڑتا ہے ۔ مگر اب وہ دور باقی نہیں رہا یاد نہیں کتنے برس بعد صبح سویرے سٹال پرپہنچا تو چند ایک اخبارات کے گنتی کے پرچے نظر آئے , اخبارات کی سرکولیشن کے بارے میں پوچھا تو ندیم صاحب بتانے لگے اکثر اخبارات کی سرکولیشن نا ہونے کے برابر ہے اور کئی ایک کا تو ایک پرچہ تک نہیں آتا اکا دکا اخبارات کی سرکولیشن کے طفیل تاحال اخبار فروشی کا بھرم قائم ہے , اب سوشل میڈیا کا دور ہے مستند صحافتی اداروں اور معروف صحافیوں کو بھی اس تیز ترین ذریعہ ابلاغ کا سہارا لینا پڑتا ہے کہ ان کی ٹاپ سٹوریز اخبارات میں شائع ہونے سے بہت پہلے نامعلوم آن لائن صحافی غیر اشاعتی آن لائن اخبارات پر دنیا بھر کو پیش کر چکے ہوتے ہیں گفتگو کے دوران ایک دو اخبارات بھی بک گئے تو سوچا اخبارات بک تو رہے ہیں پھر یاد آیا کہ اخبارات اور سرکاری اشتہارات عدالتی مشتہریاں دستاویزات درستگیاں وغیرہ تو سرکاری طورپرلازم ملزوم ہیں تو شاید بطور ثبوت اخبار کی کاپی مطوب ہو , یہ تو معلوم نہیں کہ اخبارات اور صحافت کا مستقبل کیا ہو گا؟ مگر یہ مسلمہ حقیقت ہے اخبار اور اخبار فروشی دم توڑ رہے ہیں انہیں ختم نہیں ہونا چاھئیے اس صنعت کو بڑھاوا دینے کی ضرورت ہے اگر آپ جج وکیل ڈاکٹر ٹیچر سرکاری اہلکار دوکاندار زمیندار غرض یہ کہ پاکستان کے خواندہ شہری ہیں تو روزانہ ایک اخبار ضرور خریدیں اس کا مطالعہ کریں شام کو اسے گھر لے جائیں تاکہ آپ کے بچے بھی گاہے بگاہے اس کا مطالعہ کریں ان کے شوق مطالع کو تقویت ملے اوران میں کتب بینی کا شوق بھی در آئے کہ کتابوں کے اوراق بھی انہیں پڑھنے والوں کے نہ ملنے پر پژ مردہ ہیں سوشل میڈیا کی اہمیت سے انکار احمقوں کی جنت میں رہنے کے مصداق ہے تو اس کے فوائد و نقائص کو جانے بغیر اس پر اعتبار تباہ کن , مطبوعہ صحافت نے ریڈیو ٹیلی ویژن جیسی ایجادات کے بعد بھی اپنا وجود قائم رکھا اب یہ صنعت صحافت ڈیجیٹل میڈیا کے مقابل دھڑک رہی ہے بحرحال اس کی سانسوں کو بحال رکھنے کے لئے دنیابھر میں سعی کی جاتی ہے بھلے مصنوعی تنفس کا سہارا لیا جائے کہ سائبر سپیس کی ڈیجیٹل دنیا برقی آلات سے چلتی ہے بجلی گل ہو جائے تو پلے رہ کیا جاتا ہے؟ ردی ٹٹول کر دھول جھاڑ کر ورق پلٹ کر لفظ ڈھونڈے تو جا سکتے ہیں ۔
88