محمد عتیق فرہاد‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
وفاقی ضلع اسلام آباد کی 50یونین کونسلوں کو تقسیم کر کے نئی حلقہ بندیوں کرکے قومی اسمبلی کی3 نشستیں بنائی جائیں گی۔جس کے لیے الیکشن کمیشن کے اہلکار ان حتمی شکل دینے کے لیے کام کر رہے ہیں جس پر بہت جلد عمل درآمد کر لیا جائے گا ۔50یونین کونسلوں کو اگر تین حلقوں میں بانٹا جائے تو تقریبا17عددیوسیز تک حلقہ بنتا ہے جس میں آبادی 7لاکھ بنتی ہے اور اسی کوالیکشن کمیشن کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق بنیاد بنائے جانے کی خبریں گردش کی جا رہی ہیں مگر یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ نیا حلقہ بندی وفاقی ضلع کی کس یونین کونسل سے پہلے شروع کی جائے گی ۔نئی حلقہ بندی اصول و ضوابط کے رو سے ماہرین قانون کی نظر میں شمالی (NORTH) حصہ سے شروع کی جاتی ہے مگربلدیاتی الیکشن2015ء میں اس کی حقیقی طور پر عملداری نہ کی گئی ۔
سیاسی پنڈتوں ،قانونی تجزیہ کاروں اور سیاسی نمائندوں کی رائے اور الیکشن کمیشن کے غیر حتمی پی سی ون کے مطابق ایک حلقہ یوسی 1سید پور سے یوسی 17کورال تک کو حلقہ 54کا نام دیا جا رہا ہے جس کی آبادی 6لاکھ 24ہزار985افراد پر مشتمل اور ووٹرز1لاکھ 61ہزار183ہیں جبکہ دوسرا حلقہ یوسی 18سے یوسی 33اس میں یوسی 40بھی شمار کی جا رہی ہے اس کو حلقہ53کا نام دیا گیا ہے یہاں کی آبادی 6لاکھ 67ہزار 755افراد اور ووٹرز 2لاکھ 10ہزار523ہے ۔جبکہ تیسرا حلقہ یوسی 29،34اور یوسی 50کو تیسرا حلقہ 52بتایا جا رہا ہے اس کی آبادی 6لاکھ 97ہزار 610افراد جبکہ ووٹرز2لاکھ 59ہے ۔اس میں بلدیاتی الیکشن 2015ء کے بلدیاتی الیکشن کی ووٹرز اور مردم شماری 2017ء کی رپورٹ کو مد نظر رکھا گیا ہے ۔ دوسرے پی سی ون کی رویوسی 2نورپور شاہاں سے یوسی 23کری تک ایک حلقہ 54جس میں یوسی 15,لوہی بھیر،19ترلائی کلاں،22چک شہزاد شامل نہ ہیں اس کی آبادی 6لاکھ 29ہزار958افراد پر محیط ہے ۔جبکہ حلقہ 53میں جس کی آبادی 6لاکھ 69ہزار151افراد اس میں یوسی 1سید پور،15لوہی بھیریوسی 17کورال تا یوسی 40آئی ایٹ اس میں یوسی 20،یوسی 23،یوسی 29شامل نہیں کی گئیں ۔جبکہ 52حلقہ میں یوسی 29تا 50میںیوسی30،33،32،40شامل نہ ہیں۔اس کی آبادی 7لاکھ 7ہزار463افراد ہے ۔دونوں پی سی ون میں حکمران جماعت کے ممبر قومی اسمبلی حلقہ 49 وزیر کیڈ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کی آبائی یوسی چک شہزاد 22حلقہ 54میں شامل نہیں ہے ۔ گزشتہ الیکشن کے رنر اپ تحریک انصاف چوہدری الیاس مہربان بھی اس حلقہ مذکورہ میں شامل نہیں ہو رہے چوں کہ ان کی یوسی ترلائی 19ہے ۔اسی حلقہ میں تحریک انصاف کے علی اعوان ،قیصر جاوید بھی آمدہ الیکشن کے لیے پر تول رہے ہیں مگر قومی سطح کے الیکشن میں یوسی لیول کو بنیاد نہیں بنایا جاتا اس حلقہ میں تحریک انصاف کے راجہ خرم نواز پر تول چکے ہیں اور انہوں نے گزشتہ چھے ماہ سے اپنی سیاسی توانائیاں اپنے حلقہ عوام میں لگا رکھی ہیں جو باقاعدہ مہم سازی کر رہے ہیں اسی حلقہ میں پی پی پی مصطفی نواز کھوکھر کی بھی آمدہ الیکشن میں حصہ لیں گے جس بابت انہوں نے اپنے قرابتداروں و چیف سپورٹروں کو مطلع کردیا اور وہ اپنی اعلیٰ قیادت کو بھی جلسہ فیض آباد میں پاور شو کروا چکے ہیں نیزپی پی پی کے ضلعی جنرل سیکرٹری راجہ امجد محمود بھی آمدہ الیکشن میں امیدوار ہوں گے ۔اس حلقہ میں حکمران جماعت کی طرف سے بلدیاتی الیکشن میں ٹکٹ ہولڈرز میں سوائے راجہ وقار اور قاضی فیصل نعیم کے کوئی بھی چئیرمین منتخب نہیں ہوا تھا ۔یہاں سے آزاد چئیرمین منتخب ہوئے تھے جو بعدازاں مشروط طور پر حکمران جماعت کا حصہ بنے وزیر کیڈ نے ان شرائط کی بھی پاسداری نہ کی علاوہ ازیں اگر اس حلقہ میں ڈاکٹر طارق فضل چوہدری اگر ٹکٹ نہ لیں تو چئیرمین یوسی ہمک 13قاضی فیصل نعیم جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ زمانہ طالب علمی سے نون لیگ کے کارکن ہیں کو پارٹی ٹکٹ دے تو مقامی ہونے کی وجہ سے نمایاں کارکردگی دکھا سکتے ہیں مگر ان کی طرف سے تاحال کسی خواہش کا اظہار نہ کیا گیا ہے ،اسی حلقہ میں ممتازسماجی شخصیت و لیگی رہنماء الحاج راجہ مجاہد بھی اہمیت کے حامل ہیں مگر تاحال اس حلقہ میں سیاسی پنڈتوں کی نظر میں راجہ خرم نواز ہی مضبوط امیدوار کے طور پر منظر عام پر آ رہے ہیں ۔نئی حلقہ بندیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حکمران جماعت سمیت تحریک انصاف ،پیپلز پارٹی کو دونوں حلقوں 53,54میں دیکھ بھال کر اپنے اپنے نمائندوں کو ٹکٹ دینا ہوں گے اگر بلدیاتی الیکشن 2015ء کی طرح من پسندانہ دئیے گئے تو نتائج غلط برآمد ہونے کے قوی امکانات ہیں ۔دوسرا تحریک لبیک بھی اپنے اپنے امیدوار سامنے لانے کی ٹھان چکی ہے ،سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ہر حلقہ سے مذہبی اور تحفظ ناموس رسالت ﷺ جیسے ایشو کی وجہ سے حکمران جماعت کے کم از کم 15سے 20ہزار ووٹ ہر حلقہ سے ٹوٹیں گے کیونکہ دیہی مضافات میں مذہبی رہنماؤں کو فوقیت حاصل ہے ۔تحریک انصاف کے چوہدری الیاس مہربان اورراجہ خرم نواز کی آپس میں سیاسی چپقلش بھی دم توڑ جائے گی چوں کہ حلقہ بندیوں کی وجہ سے حلقے ہی الگ الگ ہو جائیں گے جس کا کریڈٹ ان کی جماعت کو جائے گا ،حکمران جماعت اور پی پی پی کے لیے امیدواروں کو نامزد کرنے میں اعلیٰ سیاسی بصیرت کی اہم ضرورت ہوگی ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وفاقی ضلع کی حلقہ بندیاں کس اصول وضوابط کو مد نظر رکھتے ہوئے کی جائیں گی تاکہ بروقت الیکشن میں کوئی سیاسی حجت نہ ہو ۔
191