عبدالستارنیازی‘پنڈی پوسٹ /دو یوم قبل صبح موٹرسائیکل کا چین ٹھیک کرانے مکینک کے پاس گیا، دوران گفتگو کرونا پر بات چل نکلی میں نے پوچھا کب ورکشاپ کھولی؟کہنے لگے لاک ڈاون کے اڑھائی ہفتے بعد کھول لی تھی، معاملات خراب ہو گئے تھے، جو رقم موجود تھی اس کا سامان منگوا لیا تھاجو حسب معمول ہر ماہ منگواتے ہیں، سامان گودام میں پڑا تھا کہ لاک ڈاون شروع ہو گیا، اب نہ سامان بِکے نہ ورکشاپ کُھلے اور نہ سرکل چلے، تنگ آمد بجنگ آمد کے تحت ورکشاپ کھولی ہے کہ ہمارا بھی سرکل چلے اور ملازمین کا بھی،یہی صورتحال تاجروں کی ہے شادیوں کا سیزن تھا، سب نے سامان منگوا لیا، پھر لاک ڈاون شروع ہو گیا، عام دنوں میں جہاں 50 کسٹمرز ڈیل کرتے تھے، اب چوری چھپے شٹر upشٹر down سے 10 بھی ڈیل نہیں کر سکتے، روزانہ کا سرکل چلانے کیلئے مجبوری کے طور پہ دکانوں کے باہر بیٹھے رہتے ہیں، کوئی کسٹمر آ جائے تو اسے ڈیل کر لیتے ہیں، اب جو سامان پڑا ہے اس نے بِکنا ہے تو رقم آئے گی، یہ بینک تھوڑی ہے پیسے پڑے رہیں گے تو منافع لگتا رہے گا، جوتے، کپڑے، کاسمیٹکس، جیولری و دیگر سامان کے بچے تو نہیں ہوتے، اس ساری صورتحال میں دکانوں پہ کام کرنے والے فاقوں پہ مجبور ہیں، دکاندار / تاجر خود کمائے گا تو اپنے ملازم کو دے گا، وہ اپنی روٹی پوری کرنے میں مصروف ہے اور پریشان ہے، اب وہ خود کھائے یا گھر بیٹھے ملازم کو دے، اچھے خاصے مالدار طبقے نے رونا دھونا شروع کر دیا ہے، پہلے پہل مخیر حضرات نے دل کھول کر لوگوں کی مدد کی، راشن اور رقم تقسیم کی مگر اب ان کے اپنے حالات پتلے ہورہے ہیں، لاک ڈاؤن کب تک جاری رہے گا؟ یہ کسی کو نہیں معلوم، البتہ وزیراعظم عمران خان نے گرین نگہبان پروگرام کی منظوری دے دی ہے جس سے کرونا لاک ڈاؤن سے متاثرہ افراد کو اسی طرح فائدہ پہنچے گا جیسے میٹرو بس سے فاقہ کشوں کو پہنچتا رہا ہے، گرین نگہبان پروگرام کا آغاز کب ہوگا؟ اس کی تاریخ منظرعام پر نہیں آئی تاہم عوام اس پروگرام کے اشتہارات دیکھ دیکھ کر یقینا سیر ہو جائیں گے کہ آوے ہی آوے اور جاوے ہی جاوے تو عوام کو دکھانا ہوتاہے، ٹائیگر فورس کی رجسٹریشن ہوگئی اب آگے کیا لائحہ عمل ہے اس پر حکومت تاحال خاموش ہے، مانگنے کی عادتیں چونکہ ہمیں شروع سے پڑی ہیں اس لیے وزیراعظم کشکول لئے ہر چوتھے دن ٹی وی پر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر”میرے پاکستانیو“ کی رٹ شروع ہوجاتی ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ آپ فنڈ اکٹھا نہ کریں مگر جو رقم پہلے سے موجود ہے اس کو تو کہیں خرچ کریں، احساس کفالت پروگرام کے تحت جو رقم تقسیم کی جارہی ہے وہ انتہائی احسن اقدام ہے، گھریلوخواتین جھولیاں اُٹھا اُٹھا کر دعائیں دے رہی ہیں تو دوسری جانب اس پروگرام کی شفافیت پر بھی سوالات اُٹھے ہیں، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت پیپلز پارٹی دور میں اچھے خاصے لوگوں کو نوازا گیا جس کی چھان بین سرکاری افسران تک تو حکومت نے کرلی مگر اس سے نیچے غیر مستحق افراد تک پروگرام انتظامیہ نہ پہنچ سکی اور اسکا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب کی بار مستحقین کے 12000روپے غیر مستحق افراد لے اُڑے ہیں جو کہ اپنی جگہ زیادتی ہے، لیکن بہرحال اس موقع پر 12000روپے کی فراہمی یقینا لائق تحسین اقدام ہے اور کسی گھپلے سے بچنے کیلئے بائیومیٹرک سسٹم کا تجربہ اچھا جارہاہے، گوجرخان میں کرونا وائرس کے نتیجے میں 4افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں، جبکہ 40سے زائد افراد اس وائرس سے متاثر ہوئے تھے جن میں سے بعض کو علاج کے بعد ڈسچارج کر دیا گیا جبکہ بعض تاحال ہسپتالوں میں زیرعلاج ہیں، بازاروں میں رش حسب معمول ہے، گزشتہ روز بھی انتظامیہ نے کاروائی کرتے ہوئے تقریبا بیس کے قریب دکانات کو سیل کیا اور جرمانے کئے، مگر سوال یہ ہے کہ جس کے گھر میں راشن نہیں ہے وہ دکان نہ کھولے تو کہاں جائے؟ تاجروں کا مطالبہ سامنے آیا ہے کہ حکومت ہمیں بلاسود آسان شرائط پر قرضہ دے، حکومت اس حوالے سے کوئی حکمت عملی بنانے سے قاصر ہے، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے مدد کی اپیل کی جارہی ہے تو اس موقع پر بیرون ملک پاکستانیوں نے اربوں کے حساب سے فنڈ بھی دیا ہے وہ خرچ کہاں ہوگا؟ امید تو اچھے کی رکھنی چاہیے مگر موجودہ نظام کے ہوتے ہوئے کسی اچھے کی امید مجھے ہرگز نہیں، کیونکہ ادویات کی مدمیں ایک موصوف اربوں ہڑپ کر گئے آج تک ان سے ایک پائی وصول نہیں ہوئی، آٹا، چینی سکینڈل کی رپورٹ کو مزید تین ہفتے دے دیئے گئے اس سے بھی کسی اچھے کی امید اس لئے نہیں کہ اس میں جہانگیر ترین کا بھی نام شامل ہے اور جہانگیر ترین کی تحریک انصاف میں کیا پوزیشن ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، پاکستان میں ہمیشہ آفات سے دیہاڑی دار طبقہ ہی متاثر ہواہے، سحری و افطاری کیلئے کھانے کو کچھ نہیں تو ایک غریب شخص کیا کرے؟ اس بار فروٹ تو لینے سے قاصر ہیں مگر بجلی اور گیس کے بل مقررہ تواریخ پر پہنچ گئے، ریلیف دیا گیا مگر جس کے پاس کھانے کو لانے کیلئے پیسے نہیں وہ بل کہاں سے دے گا؟ حکومت عوام کو ریلیف دینے میں تاحال ناکام نظرآرہی ہے، روزانہ کی بنیاد پرمساجد کی چیکنگ ہورہی ہے، مساجد میں وضو کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے جبکہ سینیٹائزر اور ماسک کے استعمال کو یقینی بنانے کیلئے بھی انتظامیہ نے ہدایات جاری کررکھی ہیں، قابل اعتراض بات یہ ہے کہ انتظامیہ جس طرح مساجد کی نگرانی کررہی ہے ایسے ہی بازاروں کی نگرانی کرتی تو شاید اب تک کرونا وائرس پر کافی کنٹرول پایا جاچکا ہوتا، مگر چونکہ حکومت کی اپنی حکمت عملی اور انتظامیہ کو اعلیٰ حکام کی جانب سے جیسی ہدایات ملی ہیں تو انہوں نے اس پر ہی عملدرآمد کرنا ہے، عوام کتنی سنجیدہ ہے اس کا اندازہ آپ بازار کا چکر لگاکر چیک کر لیں، اسی وجہ سے کرونا کے کیسز دن بدن بڑھ رہے ہیں، ہم کب جاگیں گے؟ ہم کب سمجھیں گے؟ ہم کب سوچیں گے؟ ہمیں نہ اپنی جانوں کی پرواہ ہے اور نہ دوسروں کی۔ بس خدا ہی ہمیں ہدایت دے۔ والسلام
213