لڑکیوں کے حقوق کا عالمی دن

. حذیفہ اشرف
huzaifaashraf8340@gmail.com
گیارہ اکتوبر وہ دن تھا جب اقوامِ متحدہ کی جانب سے لڑکیوں کا عالمی دن منایا گیا۔ تب سے ہر سال 11 اکتوبر کو بچیوں کا عالمی دن دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد دراصل بچیوں کے حقوق کو اجاگر کرنا اور ان کے بہتر مستقبل کے لیے آگاہی پیدا کرنا ہے۔ بدقسمتی سے اس دن کو منانے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اگر لڑکیوں کے حقوق کی بات کی جائے تو آج بھی بہت کم لوگ ہیں جو انہیں ان کے حقیقی حقوق دیتے ہیں۔ قدیم زمانے میں لڑکیوں کو کمتر سمجھا جاتا تھا، عرب انہیں زندہ دفن کر دیتے تھے اور ایرانی انہیں عیاشی کا سامان سمجھتے تھے، لیکن جب اسلام اس دنیا میں آیا تو اس نے لڑکیوں کی تقدیر بدل دی۔ اسلام نے خواتین کو بے شمار حقوق دیے، انہیں تحفظ فراہم کیا، اور تعلیم و تربیت پر خاص زور دیا۔ اسلام نے عورت کو اپنی مرضی سے شادی کرنے کی اجازت دی اور یہ اصول مقرر کیا کہ شادی سے پہلے عورت کی ضروریات کا ذمہ دار اس کا والد، اور شادی کے بعد اس کا شوہر ہوگا۔ بدقسمتی سے ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی اپنی بچیوں کو ان کے حقوق کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت نہیں دیتے۔ پاکستان میں آج بھی بہت سی بچیوں کو نہ تو تعلیم دی جاتی ہے اور نہ ہی ان کی مرضی کے مطابق شادی کرنے دی جاتی ہے۔ یہ المیہ ہے کہ ہم اس اسلام کو مانتے ہیں جس نے عورتوں کو تحفظ دیا، لیکن ہم اسلام کے بنائے ہوئے قوانین پر عمل کرنے کے بجائے اپنی مرضی کے نظام کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ خواتین پر اپنا دبدبہ قائم رکھ سکیں۔ پاکستان میں عورت کو مجروح کرنے والے واقعات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر، بلوچستان میں ایک جرگے نے اپنی مرضی سے شادی کرنے والی لڑکی کے قتل کا فیصلہ دیا، اور راولپنڈی میں بھی اسی طرح کا واقعہ پیش آیا جہاں گھر والوں نے اپنی بیٹی کو قتل کر دیا۔ آج کے اس جدید دور میں اگر کسی بچی کا ریپ ہو جائے تو بجائے اس کے حق میں آواز بلند کرنے کے، اسے یہ کہہ کر چپ کرا دیا جاتا ہے کہ “اس سے گھر والوں کی بدنامی ہوگی۔” لیکن اگر یہی غلطی کوئی لڑکا کرے تو اسے معاف کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی لڑکا اپنی مرضی سے شادی کرنے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے تو اس کی مرضی قبول کر لی جاتی ہے، مگر اگر کوئی لڑکی ایسا کہے تو اسے ڈرایا، دھمکایا یا مارا پیٹا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی مرضی سے باز آ جائے۔ اسی طرح تعلیم کے معاملے میں بھی یہی صورتحال ہے۔ بچے کو اپنی پسند کے اسکول یا کالج میں داخلے کی آزادی ہوتی ہے، مگر بچیوں کو ان کی مرضی کے مطابق تعلیم حاصل کرنے نہیں دی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں خواتین کی شرح خواندگی بہت کم ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، پورے ملک میں خواتین کی شرح خواندگی صرف 52 فیصد ہے۔ اگر صوبوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اسلام آباد (دارالحکومت) 79 فیصد، پنجاب 60 فیصد، سندھ 50 فیصد، خیبر پختونخوا 37 فیصد اور بلوچستان 32 فیصد ہے۔ پاکستان میں اگر کوئی لڑکی اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرے تو اسے خاموش کر دیا جاتا ہے، بلکہ بدکردار بھی کہا جاتا ہے۔ یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ یہاں بات عورت مارچ کی نہیں، بلکہ ان نیک نیت بچیوں کی ہو رہی ہے جو اپنی ذمہ داریاں بھی نبھانا چاہتی ہیں اور اپنے جائز حقوق بھی حاصل کرنا چاہتی ہیں، مگر ان کی آواز کو دبایا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں خواتین پر فرائض تو بہت ڈالے جاتے ہیں، مگر جب حقوق کی بات آتی ہے تو مرد انکار کر دیتے ہیں۔ یہ شرمناک حقیقت ہے کہ پاکستان میں بہت سی خواتین ایک ایسی غلامی جیسی زندگی گزار رہی ہیں جہاں وہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود اسلام کے عطا کردہ حقوق سے محروم ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی ماں، بہن اور بیٹیوں کی حفاظت ضرور کریں، مگر انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم نہ کریں۔ لڑکیوں کو تعلیم دیں تاکہ وہ اپنے اور اپنی آنے والی نسل کے لیے بہتر مستقبل بنا سکیں۔ پاکستان میں آج بھی بہت سی لڑکیاں کچہری میں نکاح کرتی ہوئی نظر آتی ہیں، جس کی شرح دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ اس مسئلے کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ خواتین کی شادی ان کی مرضی کے مطابق کی جائے۔ اگر لڑکا اسلام کے اصولوں کے مطابق نہ ہو تو سمجھانے کی کوشش کی جائے، مگر زبردستی یا دباؤ ڈال کر عورت کی عزت کو مجروح نہ کیا جائے۔ اگر ہم اس سوچ میں بہتری لائیں تو ہمارا معاشرہ ایک پڑھا لکھا، باشعور اور پُرسکون معاشرہ بن سکتا ہے، جہاں خواتین بااختیار ہوں اور ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو۔ پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ ہر سال اس حوالے سے سیمنارز اور آگاہی مہمات کا انعقاد کرے، تاکہ عوام خواتین کے حقوق کو سمجھ سکیں کیونکہ کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی اس کی عورتوں کی تعلیم اور عزت سے جڑی ہوتی ہے۔