گوجرخان میں 3بڑی جماعتوں میں سخت مقابلہ متوقع

عبدالستار نیازی ‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
ن لیگ کے سابق ایم پی اے راجہ شوکت عزیز بھٹی کا سابقہ حلقہ پی پی 4 اور موجودہ حلقہ پی پی 9 میں ان کا کافی اثرورسوخ ہے، ان کے مقابلے میں الیکشن جیتنا جان جوکھوں کا کام ہے، ق لیگ ہو یا ن لیگ ان کا پلڑا ہمیشہ بھاری رہاہے، اسی حلقے میں تحصیل صدر مسلم لیگ ن راجہ حمید بھی ہیں اور انہوں نے بھی ن لیگ کے ٹکٹ کیلئے درخواست دے رکھی ہے جس کا فیصلہ ہونا باقی ہے کہ مسلم لیگ ن کا ٹکٹ شوکت عزیز بھٹی کی جھولی میں آتا ہے یا راجہ حمید کے آنگن میں، گوجرخان مسلم لیگ ن کا گڑھ رہا ہے مگر گوجرخان کی سیاست ہوا کے رُخ پر ہمیشہ چلتی آئی ہے، نواز شریف کے دور اقتدار کے آغاز میں مسلم لیگ ن بھاری اکثریت سے گوجرخان سے کامیاب ہوئی جب میاں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب بنے تھے ، اس کے بعد وزیراعظم بنے تب بھی گوجرخان سے مسلم لیگ ن کامیاب ہوئی، مشرف دور میں مسلم لیگ کے نظریاتی کارکن تو پارٹی کیساتھ وفادار رہے مگر وفاداریاں بدلنے والوں نے ق لیگ جوائن کی اور اقتدار کے مزے لئے، 2008کے الیکشن میں بینظیر بھٹو کی شہادت کے باعث پیپلز پارٹی عوامی ہمدردیاں سمیٹنے میں کامیاب ہوئی اور یہاں سے راجہ پرویز اشرف کامیاب ہوئے ، 2013 میں راجہ پرویز اشرف شکست سے دوچار ہوئے اور ن لیگ کے ٹکٹ پر راجہ جاوید اخلاص کامیاب ہوئے اور اپنا 5سالہ دور اقتدار مکمل کیا اور اب پھر ن لیگ کے ٹکٹ پر ایم این اے کا الیکشن لڑنے کیلئے تیار ہیں جن کے ٹکٹ کا فیصلہ ہونا بھی ابھی باقی ہے، حلقہ این اے 51 اور حلقہ پی پی 8و 9 سے ن لیگ کے امیدواران کی ترتیب کچھ یوں ہے کہ حلقہ این اے 58 سے ایم این اے کیلئے سابق ایم این اے راجہ جاوید اخلاص اور سابق صوبائی وزیر و سینئر مسلم لیگی رہنما چوہدری محمد ریاض نے ٹکٹ کیلئے درخواست دے رکھی ہے، حلقہ پی پی 8 سے مسلم لیگ ن فرانس کے چیئرمین راجہ علی اصغر ، مسلم لیگ ن کے رہنما و سٹی کونسلر راجہ سہیل کیانی ، چیئرمین او پی ایل چوہدری اشتیاق نے صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ کیلئے جبکہ حلقہ پی پی 9 سے سابق ایم پی اے راجہ شوکت عزیز بھٹی نے اپنی اہلیہ اور تحصیل صدر مسلم لیگ ن راجہ حمید ایڈووکیٹ نے صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ کیلئے درخواستیں دی ہیں، جن کا فیصلہ ہونا باقی ہے ، مگر ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی کیلئے راجہ جاویداخلاص ، صوبائی اسمبلی کیلئے چوہدری ریاض اور راجہ حمید کا نام فائنل کر لیا گیا ہے، پی پی 9سے سابق ایم پی اے کی اہلیہ کو ٹکٹ نہ ملنے کی صورت میں ان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ راجہ شوکت عزیز بھٹی اپنی اہلیہ کو آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ دلوائیں گے اور انہوں نے اپنی بھرپور پاور گزشتہ دنوں اپنے حلقہ میں ایک افطار پارٹی میں ظاہر کر دی ہے جس سے مخالفین سخت پریشان ہیں،پی پی 8سے چوہدری ریاض کو ٹکٹ ملنے کی صورت میں مسلم لیگ ن کے نظریاتی ورکرز بھرپور طریقے سے انتخابی مہم چلائیں گے کیونکہ گزشتہ الیکشن میں قیادت سے نظریاتی کارکن نالاں تھے جن کو راضی کرنے کا ارادہ کر لیا گیاہے،جبکہ چوہدری ریاض کے قریبی ذرائع کے مطابق اگر چوہدری ریاض کو قومی اسمبلی کی بجائے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیا جاتاہے تو ان کے فرزند اس ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے، گوجرخان میں تحریک انصاف نے گزشتہ دنوں ایک افطار پارٹی میں اپنی بھرپور پاور شو کی ہے جس کے بعد ن لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما و کارکنان میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے ، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہونے والے افراد کی ایک طویل فہرست دیکھنے میں آئی جن کے سارے نام نہیں لکھے جا سکتے، مسلم لیگ ن کے نظریاتی ورکر اور 2013 کے الیکشن میں بھرپور الیکشن مہم چلانے والے ثاقب علی بیگ سٹی کونسلر و سابق امیدوار برائے چیئرمین بھی اس افطار پارٹی میں تحریک انصاف میں شامل ہوگئے، نوجوانوں کی بڑی تعداد تبدیلی کی خواہشمند ہے اور وہ تحریک انصاف کے جھنڈے تھامے ہوئے ہیں ، نوجوانوں کی اکثریت کی ووٹ نہیں بنی مگر وہ تبدیلی کے خواہشمند ضرور ہیں، سوشل میڈیا پر چوبیس گھنٹے ن لیگ ، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے کارکنان کے درمیان نوک جھونک جاری رہتی ہے تحریک انصاف نے چوہدری محمد عظیم، چوہدری جاوید کوثر، چوہدری ساجد محمود کے نام فائنل کر دیئے ہیں ، تمام امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیئے ہیں، ن لیگ کے نظریاتی گروپ کی امیدواروں کی حمایت سے ن لیگ گوجرخان میں مزید مضبوط ہو گی، جبکہ تحریک انصاف کے نظریاتی کارکنان کی پارٹی امیدواروں کی حمایت سے بھی ان کو خاطرخواہ فائدہ پہنچے گا،پیپلزپارٹی کے نظریاتی ورکرز بھی ٹکٹ کے اعلانات کاانتظار کررہے ہیں جبکہ اس حوالے سے محسن صغیر بھٹی امیدوار حلقہ پی پی 8 کا کہنا ہے کہ راجہ پرویز اشرف کی قیادت میں متحد ہیں اور پارٹی کے فیصلے کو تسلیم کریں گے، نظریاتی کارکن کسی پارٹی کا اثاثہ ہوتے ہیں جن کو کسی صورت نظرانداز نہیں کیاجاسکتا، کیونکہ لوٹے آج یہاں تو کل وہاں مگر نظریاتی کارکن کٹ مرنے کو تیار رہتے ہیں اور اپنی قیادت کے فیصلوں اور اعلانات پر لبیک کہتے ہیں، گوجرخان میں پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف او رن لیگ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے ،شرقی گوجرخان سے تحریک انصاف کا پلڑا بھاری ہونے اور غربی گوجرخان سے پیپلز پارٹی کی جیت کے آثار نظرآرہے ہیں، دیہاتوں میں ن لیگ او رپیپلز پارٹی کا ووٹ بینک مضبوط ہے، گوجرخان شہر میں ن لیگ کامیاب ہوتی نظرآرہی ہے،نوجوان اور تبدیلی کے خواہشمند خاموش طبیعت کے لوگوں کا ووٹ بینک تحریک انصاف کے حصے میں آئے گا ، اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی حریف پارٹیاں ن لیگ ، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کو چت کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں