columns 87

پاکستان میں ٹیکسوں کا منصفانہ نظام نا فذ کیا جائے

پاکستان میں اقتصادی ماہرین ایک عرصہ سے یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ پاکستان میں ٹیکسوں کا نظام منصفانہ بنانا جائے جوامیر ہیں ان سے زیادہ ٹیکس لیا جائے اور جو غریب ہیں انہیں حکومت سبسڈی دے کر زندگی گزار نے کے قابل بنانا جائے مگر ہماری کوئی حکومت بھی ایسا کام نہیں کر سکی چھہترسال گزر گئے مگر پاکستان میں ایسا کوئی نظام ہی وضع نہیں کیا جاسکا جو ایک طرف ملکی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد دے اور دوسری طرف عام آدمی کو ریلیف دینے کا باعث بنے ٹیکس نیٹ بڑ ھانے کی بات ہمیشہ کی جاتی ہے مگر اسے بڑھانے کے لیے جس عزم وحوصلہ کی ضرورت ہے وہ ہمارے حکمرانوں میں نظر نہیں آتا گھوم پھر کے سارا نزلہ ایک عام پاکستانی پر ہی گرتا ہے جو بجلی گیس پیٹرول اور دیگر اشیا ء پر سیلز ٹیکس کی مد میں اپنی محدود آمدنی کا اچھا خالصہ حصہ ادا کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے بالو اسطہ ٹیکسوں کا جو کلہاڑا پاکستان میں چلایا جاتاہے اس کی پوری دنیا میں مثال نہیں ملتی اور ایسا بھی نہیں ہے کہ اس عمل میں آئی ایم ایف شریک نہیں ہوتا

بلکہ اس کااس بات میں پورا پورہاتھ ہے مثلا ًحالیہ دنوں میں بجلی کے بلوں میں کٹوتی کے لئے جب ٹیکسوں میں کمی کی بات ہوئی تو آئی ایم ایف نے اس کی مخالفت کی او ر ٹیکس کم کر کے عوام کو ریلیف دینے کا طریقہ مسترد کر دیااس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حکومت نے اس کا متباد ل کوئی نظام نہیں دیا فائلر اور نان فائلر کی تقسیم بھی صرف پاکستان میں موجود ہے ورنہ پوری دنیا میں یہ کہیں نہیں کہ کوئی اپنی مرضی سے ٹیکس دے اور کوئی نہ دے یہاں ارب پتی ار ب پتی لوگ بھی موجود ہیں جوڈیفالٹرزہیں اور نہ ہی ٹیکس گوشوارہ بھرتے ہیں بڑے بڑے شہروں میں لاکھوں دولت مند ہیں جبکہ ٹیکس دینے والے رجسٹر افراد کی تعداد دیکھی جائے تو وہ لاکھوں میں نہیں نکلتی ٹیکس دینے والوں میں ملازمت پیشہ افراد کی تعدادسب سے زیادہ ہے اس وقت ملک میں جتنی مہنگائی ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ تو کہا جاسکتاہے کہ ایک طبقہ ایسا ضرور ہے جس نے اس دوران اپنی تجوریاں بھری ہیں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا ٹیکس نیٹ میں بھی ان کا اضافہ ہوا ہے؟ ان کی اس آمدنی پر ٹیکس وصول کیا گیا ہے؟ ایف بی آرکے اعداد وشمار تو جب بھی آتے ہیں تو ہدف سے کم ٹیکس اکٹھا ہونے کا رونا ہی رویا جاتا ہے اور پھر اس کی کسر عام آدمی سے نکالی جاتی ہے

پاکستان میں امیر امیر تر اور غریب،غریب تر ہوتاچلا گیا ہے چند برس پہلے تک جو لوگ سفید پوش طبقے میں شمار ہوتے تھے آج وہ غر بت کی لکیر پر پہنچ گئے ہیں جبکہ امیر طبقے میں جو لوگ کرو ڑ پتی تھے آج وہ ارب پتی اور کھرب ہیں یہ غیر منصفانہ تقسیم کا ہے یہاں ملکی معیشت ترتیب ہی اس انداز سے دی گئی ہے کہ اس میں ایک مخصوص طبقہ اوپر جاتاہے اور ملکی آبادی کا بڑا حصہ نچلی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے ایف بی آرکو یہ اعداد وشمار سامنے لانے کی ضرورت ہے کہ وہ ٹیکسوں کی آمدنی کا کتنے فی صد حصہ براہ راست ٹیکسوں سے حاصل کرتاہے اور کتنا بالواسطہ ٹیکسوں سے قومی آمدنی کا کتنے فی صد ایک محدود طبقے کی ملکیت میں جاتا ہے اس کے بدلے میں اس طبقے سے براہ راست ٹیکس کتنا وصول ہوتا ہے اور یہاں جتنے بھی بڑے گروپ اور کاروباری طبقے ہیں وہ سیلز ٹیکس کی مد میں اپنی ادائیگیوں کی اعدا دو شمار میں ظاہر کر کے سر خرو ہو جاتے ہیں حالانکہ یہ ٹیکس انہوں نے صارفین سے حاصل کیا ہوتاہے اصل بات یہ ہے جس میں اکثر ہیرا پھری کی جاتی ہے ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ ہر سال اربو ں روپے کا ٹیکس چوری ہوتا ہے

اور اس میں خود ایف بی آر کے افسران ملوث ہوتے ہیں جبکہ دوسری طرف ٹیکس نیٹ بڑھانے
کے سلسلے میں بھی ایف بی آرکا عملہ پر دہ پوشی کرتا ہے موجودہ دور میں جب ہر چیز ٹیکنالوجی کمپیوٹر پر دستیاب ہے بلکہ کسی کے شناختی کارڈ سے اس کی ساری تفصیلات حاصل کی جاسکتی ہیں تو پھر ملک میں دونمبر اکا نومی کیوں چل رہی ہے اور کیوں فائلر اورنان فائلر کی تقسیم موجود ہے جب حکومت یہ خود چھوٹ اور ترغیب دیتی ہے تو پھر ٹیکس نیٹ کیسے بڑھایا جا سکتا ہے ایک ہی ملک میں دو قوانین کا مطلب کیا ہے اس کا مطلب ہے متوازی معیشت کی ہم لے خود چھوٹ دے رکھی ہے جس کی وجہ سے ہم نے یہ آسان راستہ چن لیا ہے اشیا ئے ضرورت اور سرو سز پر جنرل سیلز ٹیکس لگاؤ اور اپنا خزانہ بھرو اس سے اگر عوام پر بوجھ پڑتا ہے تو پڑتا رہے،طبقہ اشرافیہ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں کا ش آئی ایم ایف پاکستان حکومتوں کو سختی سے پابندی لگائے کہ امیر وں پر ٹیکس لگا کر غریبوں کو ریلیف اور تحفظ دیا جائے جس طرح وہ اپنی شرائط منواتا ہے

اسی طرح یہ شرط بھی منوائے اور یہ کام بھی صرف آئی ایم ایف ہی کر سکتا ہے وگر نہ پاکستان میں ایسے کوئی حالات نہیں کہ غریب عوام کو ریلیف دینے کے لئے امیروں پر ٹیکس لگائے جائیں یہاں امیروں اور غریبوں کی دنیا الگ ہے اس ملک کے پچیس کروڑ عوام کا نام توسب لیتے ہیں مگر انہیں حقوق ومراعات اور ریلیف دیتے وقت سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے ا س کی مثال جالیہ دنوں میں دیکھی گئی ہے کہ جب ہر طرف سے یہ آواز یں اٹھیں کہ بجلی اور پیٹرول کی مد میں ایک خاص طبقے پر بلا معاوضہ جو نواز شات کی گئی ہیں انہیں واپس لیا جائے اور اس سے حاصل پونے والی آمدنی غریبوں کی فلاح و بہود پر خرچ کی جائے تو اس مطالبے کو نا قابل قبول اور غیر ضرور ی قرار دے کے مسترد کر دیاگیا یہ ملک یہ ایک طرف تو چندلاکھ مراعات یا فتہ لوگوں کا معاملہ تھا اور دوسری طرف کروڑوں پاکستانیوں کی مشکلات کو ختم کرنے کا سوال تھا کروڑوں افرادکی ا منگوں اورحسرتوں پر پانی پھیر کرچند لاکھ لوگوں کی خوشی اور سہولت کا سامان جاری رکھا گیا

اور یہ ہماری حکومتوں کی ترجیحات رہی ہیں اور وہ آج بھی ان سے سرمو انحراف کرنے کوتیار نہیں ہمارا طبقہ امراء اس حقیقت کو تسلیم بھی کرتا ہے کہ ملک میں اس وقت انتہا درجے کی غربت ہے معاشی کساد بازازی، مہنگائی اور بے روزگاری ہے لوگوں کا جینا مشکل ہو گیا ہے مگر اہل روش کو بدلنے کے لئے تیار نہیں آج بھی امراء طبقے کی ہی خواہش ہے کہ اس کی آسائشوں کو چھیڑے بغیر سارا نظام غریبوں پر بوجھ ڈال کر چلایا جاتا ہے لیکن شاید ان کو اس بات کا کوئی احساس نہیں کہ اس کے بعد سوائے زوال کے اور کچھ باقی نہیں رہتا دو انتہا ؤں میں بٹے ہوئے ایسے معاشرے میں امن خوشحالی اور استحکام کیسے آسکتا ہے؟

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں