156

عبدالخطیب چوہدری کے زیر سایہ پروان چڑھنے والا اخبار پھلدار درخت کی مانند ہے

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
شاہد جمیل منہاس/ایک طویل عرصے بیج زمین میں دفن رہتاہے اور پھر اُسکی دن رات کی تنہائی اور اذیت بھری زندگی کی قربانی کے بعدپنیری بنتی ہے۔ یہ پنیری موسموں کی شدت، تیز ہواؤں سے ٹکراؤ اور سردی گرمی جیسے حالات سے نبرد آزما ہونے کے بعد لڑکپن کی عمر میں آ کر سمبھلتی ہے۔ اور اس کے بعد ایک نئے سفر کی ابتداء ہو تی ہے۔پھر قیاس آرائیاں جنم لیتی ہیں کے یہ درخت جس پر دن رات محنت کر کے جوان کیا معلوم نہیں اس پر پھل پھول آئیں گے یا نہیں۔ میں نے اور آپ نے دیکھا کے بے شمار پھول دار اور پھل دار درخت پر برسوں محنت کی جاتی ہے مگر وقت آنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ان میں ایسی کوئی خوبی نہیں ہے جس کے لیے اسے بویا اور بڑا کیا گیا ہے۔فیصلے سارے میرے ربّ ہی کے ہوتے ہیں اور جو وہ جانتا ہے وہ ہم انسان کہاں جان سکتے ہیں۔ مگر کہا جاتا ہے کہ جیسی سوچ ویسا اجر۔ ربّ کی ذات دلوں کے حال تک سے واقف ہے۔ لہذا اگر ہماری سوچ صاف ہے تو پھر چاہے ربّ کی ذات اس عارضی دُنیا میں اس کا اجر دے یا نہ دے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر کہا جاتا ہے کہ دہ دُنیا ستر آخرت۔ یعنی دُنیا میں اس محنت کا اجر نہ ملنا اس لیئے بہتر ہے کہ آخرت میں کئی گنا وصول کیا جاتا ہے۔ مگر چونکہ ربّ کی ذات ایک انسان سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتی ہے لہذا وہ انسان کی خواہشات کے مطابق اس عارضی دُنیا میں بھی اجر دے کر باقی دُنیا کو باور کرواتی ہے کہ اللہ کے فضل و کرم کے بعد محنت کرنے والا کامیاب ہے۔ چوہدری عبدالخطیب کے زیر سایہ پروان چڑھنے والا ہفت روزہ پنڈی پوسٹ بھی ایک پھل دار درخت کی مانند ہے کہ جس پر وہ پانی اور خوراک قربان کی گئی کہ جسکی چوہدری عبدالخطیب کو ضرورت تھی۔ ایک باپ بھوکا رہ کر بھی کہتا ہے کہ میں دوستوں کے ساتھ کھانا کھا کر آیاہوں۔ حالانکہ اس نے تو صبح ایک کپ چائے پی ہو گی یا شائد وہ بھی نہیں۔ مگراُس سے اولاد کی تنگ دستی برداشت نہیں ہوتی۔ پنڈی پوسٹ کے آغاز میں عبدالخطیب چوہدری نے اپنا پیٹ کاٹ کر دن رات ایک کر دیا مگر اسے ڈ گمگانے نہیں دیا۔پنڈی پوسٹ کے رپورٹرز اورصحافییوں سے مل کر بڑا اطمینان محصوس ہوتا ہے کہ اب جبکہ میڈیا مالکان اپنے ورکروں کو کئی ماہ سے تنخواہوں سے محروم کیے ہوئے ہیں مگر ایک ہفت روزہ اپنے ملازمین کو وقت مقررہ پر معاوضہ دے کر اللہ کی خوشنودی کا سبب بن رہا ہے۔ ایسے موقع پرربّ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اُس نے کئی انسانو ں کو اس قابل کیا کہ اُسکی وجہ سے بے شمار گھرانوں کا رزق رواں دواں ہے۔ پنڈی پوسٹ کے تمام کارکنان جن میں محترم شہزاد رضا، چوہدری محمد اشفاق، سردار بشارت، راجہ شیراز، احسان الحق، زاہد حسین، محمد ابراہیم اور عرفان کیانی شامل ہیں جو کہ انتہائی محنتی اور مخلص ہیں۔ چیف ایڈیٹر عبدالخطیب چوہدری کی تربیت ان تمام دوستوں کے کردار میں چھلک رہی ہوتی ہے۔ اس پلیٹ فارم پر کام کرنے والے تمام صحافی یقینا خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ جن کو اوقات کار کے بعد محنت کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ گھر کے سربراہ کا کردار، اس کااُٹھنا بیٹھنا اور نقل و حرکت سب کچھ گھر کے باقی مکینوں کی عادات بن جایا کرتی ہے۔ جو بات میں ابھی کرنے لگا ہوں وہ میں نے بار ہا کی ہے کیونکہ اس بات میں ہر انسان کے لیئے ایک خوبصورت سبق ہے۔ عبدالخطیب چوہدری جب خود پڑھتے تھے تو تب بھی کام کیا کرتے تھے۔ کالج کی تعلیم
کے بعدگھر سے نکلے اور یہ طے کر لیا کہ کچھ بن کر دکھاؤں گا۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ ایک اخبار میں ملازمت کرتے تھے۔ ایک دفعہ ہوا یوں کے مالکان نے دو تین ماہ کی تنخواہ نہیں دی اور دوسری جانب عید کو دو دن باقی رہ گئے تھے۔ چھوٹے بہن بھائیوں کے کپڑے اور خاص طور پر بہنوں کی چوڑیاں تک نہ خریدی تھی۔ چاند رات کو کسی دوست نے بتایا کے آپ کے لیئے خوشخبری ہے۔ وہ یہ کہ آپ آج رات کو دفتر آ جائیں آپکو تنخواہ مل جائے گی۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ سُن کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ مغرب کی اذان کے بعد راکٹ بس میں سوار ہوا اور دو گھنٹے بعد دفتر پہنچا۔ اندر جا کر پتہ چلا کے تنخواہ آج بھی نہیں مل سکتی۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ سُن کر جسم سے جان نکل گئی۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کی اوقات اور خاندانی حسب و نسب کا اندازہ دو باتوں سے بخوبی معلوم کیاجا سکتاہے۔”ایک جب آپ کے پاس کچھ بھی نہ ہو اور آپ صبر کرنے والے پائے جائیں اور دوسرا جب آپ کے پاس سب کچھ ہو اورآپ شکر کرتے ہوئے پائے جائیں“۔ وہ بتاتے ہیں کہ واپس لاہور والی گاڑی میں بیٹھا اور سیٹ پر سر رکھ کہ روات تک روتا رہا مگر صرف ربّ کے سامنے۔ دوستو جب انسان کی زندگی اتنے نشیب و فرازطے کر کے کامیابیوں کی آماجگاہ بنی ہو اور اُس کے بعد اگر وہ اپنا ماضی بھلا کر متکبر ہو جائے تو اسکی ساری زندگی کی محنت اس کے لیئے وبال جان بن جایا کرتی ہے۔ مگر کیا کہنے عبدالخطیب چوہدری کے کہ یہ شخص گُزرنے والے ہر لمحے ماضی کی یادوں کے حصار میں رہتا ہے اور خود کو یہ سمجھاتا رہتا ہے کہ وقت بڑا بے رحم ہے اس پر بھروسہ مت کرنا یہ ہر وقت پلٹا کھاتا رہتا ہے۔ لہذا اس شخص کو اس بات پر پورا یقین تھا اور ہے کہ زندگی کی تمام کامیابیاں عاجزی اور انکساری میں پوشیدہ ہیں۔ عام سا لباس پہننے والا، عام لوگوں میں بیٹھنے والا اور چھپرہوٹلوں میں کھانا کھانے والا یہ خاص شخص دراصل حقیقت سے آشنا ہو چکا ہے اور جو انسان یہ سب جان لے وہ کبھی ڈھگمگا نہیں سکتا ہے۔ ایسے افراد کے ساتھ دراصل اپنے والدین کی دُعائیں ہوا کرتی ہیں اور جس کے ساتھ والدین کی دُعائیں ہوں اُس کے ساتھ مخلوق خداکی دُعائیں بھی ہوا کرتی ہیں۔ ماضی کی ساری یادیں اپنے سینے میں سنبھال کر رکھنے والے اس بے ضرر انسان نے معروف ہفت روزہ پنڈی پوسٹ کو بھی بے ضرر بنا دیا ہے۔ اپنے بے ضرر صحافیوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلنے والا یہ پوٹھوہار کا بیٹا آج خوبصورت کردار کی وجہ سے پنڈی پوسٹ کو چار چاند لگا رہا ہے۔ بلیک میلنگ سے کوسوں دور یہ پرچہ عوام کے لیئے ایک رحمت ہے۔ کسی بھی ادارے کی ساکھ کے بارے میں اگر معلوم کرنا ہو تو اُسکا آڈٹ کرنے کے بجائے اُسکے سربراہ کے محلے میں چلے جائیں تو اُسکے دو چار دوستوں سے مل لیں یا اُس علاقے کے دو چار بُزرگوں سے مُلاقات کر لیں۔ یہ افراد اگر اس شخص کے کردار پر نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے پائے جائیں تو سمجھ لیں کہ ادارہ اور اسکی کاوشیں مثبت ہیں۔ پنڈی پوسٹ کے عارضی مالک عبدالخطیب چوہدری سے جڑنے والا ہر رشتہ اس انسان کو دعاؤں کی مستقل مالائیں پہناتا ہو ا محسوس ہوتا ہے۔ پنڈی پوسٹ کی آٹھویں سالگرہ کے موقع پر میں اتنے خوبصورت الفاظ ہی تحفے میں دے سکتا ہوں۔ حوصلہ افزائی کسی بھی انسان کو زمین سے آسمان تک لے جاتی ہے اور کسی کی محنتوں کو نظر انداز کرنا یا اُس میں نقائص ڈھونڈنا محنت کرنے والے کو مایوس کر دیا کرتا ہے۔ لہذا آج میں اور ہر باشعور انسان چیف ایڈیٹر پندی پوسٹ اور انکی ساری ٹیم کی محنتوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ اللہ پاک سے دُعا ہے کہ وہ اس ادارے کو کامیابیوں کی اعلیٰ ترین منازل عطا فرمائے آمین۔ صاف شفاف سوچ لیکر میدان عمل میں اُترنے والے اس قافلے کو خُدا آباد رکھے۔ اس اخبار کے تمام صحافیوں کے اس خوبصورت اتحاد کو قائم و دائم رکھے کہ اس طرح کا انقلاب برپا کرنے والا
بندھن بہت کم دیکھا گیا ہے۔کسی دانشور کیا خوب کہہ دیا کہ جو لوگ ٹوٹ کر اوربکھر کر واپس جڑتے ہیں وہ کبھی دوبارہ ٹوٹا نہیں کرتے۔ جاتے جاتے بس اتنا کہوں گا کہ۔
مجھے بھی آئینے جیسا کمال حاصل ہے
میں ٹوٹتا ہوں تو بے شمار ہوتا ہوں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں