371

سید آل عمران کی ادبی خدمات

روبینہ خلیل عباسی/گوجر خان عسکری، سیاسی، فطری و قدرتی لحاظ سے خطہئ پوٹھوہار کا ایک اہم شہر ہے۔ گوجر خان کو جہانگیر کے عہد میں گگھڑوں کے ایک سردار گوجر خان نے اپنے نام پر بسایا۔ گوجر خان کی سر زمین بھی عجب زرخیز زمین ہے ایک طرف تو اِس سر زمین کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس کے دو بہادر سپوتوں کیپٹن محمد سرور شہید اور سوار محمد حسین شہید نے ملک و قوم کی خدمت کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا اور نشانِ حیدر حاصل کر کے اعزازو افتخار پایا اور دوسری طرف ادب کے محاذ پر بھی قد آور شخصیات نے اِس خطہ کی عزت میں قابلِ قدر اضافہ کیا۔ سیّد آلِ عمران بھی اِن قابل قدر اور قد آور شخصیات میں سے ایک تھے۔
سیّد آلِ عمران کا اصل نام ”سیّد آلِ عمران نقوی“ ہے وہ شاعری میں عمرانؔ اور آلِ عمرانؔ تخلص کرتے تھے۔ آپ کی تاریخ پیدائش ۳۲ /اکتوبر ۴۷۹۱ء ہے۔ آپ گوجر خان کی ایک قدیم آبادی کوٹ سیّداں میں پیدا ہوئے۔ آپ کے دادا کا نام سیّد ابرار حسین نقوی جب کہ دادی کا نام سیّدہ کلثوم فاطمہ تھا۔ والد کا نام سیّد ظہورا لحسن نقوی اور والدہ کا نام سیّدہ تسلیم فاطمہ ہے(آپ کی والدہ ابھی حیات ہیں)۔ سیّد آلِ عمران کے تین بھائی ہیں جن کے نام سیّد آلِ حسن، سیّد وجاہت حسین خامس اور سیّد آلِ حمد ہیں۔سیّد آلِ عمران سب سے بڑے بھائی تھے۔ ان کی دو بہنیں تھیں جن میں سے سیّدہ اُمِّ فروہ حیات ہیں اور واہ میں مقیم ہیں جب کہ دوسری بہن سیّدہ اُمِّ لیلیٰ کم سنی میں انتقال کر گئیں۔
آپ کو ادبی ذوق ورثے میں ملا، آپ کے آباؤ اجداد علم و فنون اور موسیقی سے وابستہ رہے۔ آپ کی پردادی کے بھائی ”سیّد چنن شاہ نجفی“ بھی ایک لکھاری تھے۔ علاوہ ازیں اِن کی والدہ کے نانا ”سیّد علی قدر نقوی البھاکری“ کو بھی شاعری اور موسیقی سے گہرا شغف تھا۔ سیّد آلِ عمران کے والد بھی اداکاری کا شوق رکھتے تھے اُنہوں نے ٹیلی ویژن پر بھی کام کیا۔ سیّد آلِ عمران کی یہ خوش قسمتی تھی کہ انہیں نہ صرف ماں باپ بلکہ دادا، دادی اور پر دادی کا پیار بھی ملا۔ آپ کی پیدائش کے موقع پر جب آپ کے دادا کو ”کڑولی“ (گوجر خان کی قدیم آبادی) کی دائی فضیلت نے یہ خوشخبری سُنائی کہ اُن کا پوتا پیدا ہوا ہے تو اُنہوں نے حلوائی سے جلیبیاں بنوا کر پورے محلے میں تقسیم کیں۔
آپ نے اپنی ا بتدائی تعلیم ایم سی بوائز پبلک سکول گوجر خان سے حاصل کی جب کہ میٹرک ایم سی بوائز ہائی سکول گوجر خان سے کیا۔ اس کے بعد گورنمنٹ سرور شہید (نشانِ حیدر) بوائز کالج گوجر خان سے ایف اے کیا۔ سکول کے زمانے سے ہی آپ نے اپنی صحافتی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا تھا۔آپ نے چوتھی جماعت میں ہی مضامین، لطیفے اور خبر بنانے کا آغاز کر دیا تھا۔ آغاز میں ہی منیرا حمد ملہوترا نے سیّد آلِ عمران کی بہت حوصلہ افزائی کی۔ ملہوترا صاحب کا تعلق بھی گوجر خان سے ہے اور وہ ایک بلند پایہ کالم نگار اور متحرک صحافی ہیں۔ نویں جماعت میں آپ نے باقاعدہ شاعری کا آغاز کر دیا تھا۔ حاجی اشفاق طاہر چوہان جو گوجر خان کے ایک معروف شاعر ہیں، نے سیّد آلِ عمران کی اصلاح شروع کر دی تھی اور شاعری کے اسلوب سمجھائے۔سیّد آلِ عمران نے اپنی زندگی میں عبد الحمید تبسم کو ایک انٹرویو دیا جو روزنامہ پاکستان (اسلام آباد)، ۲۱ جولائی ۷۹۹۱ء کو چھپا۔ اِس انٹرویو میں انہوں نے اپنی پہلی غزل کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک روز میں کمرے میں بیٹھا بارش کا نظارہ کر رہا تھا اتفاقاً مجھ پر آمد ہوئی میں نے پنسل اٹھالی چند فقرے جو میرے ذہن میں گردش کر نے لگے اور میں نے انہیں کاغذ پر سجا دیا۔ مجھے احساس ہوا کہ میں لکھ سکتا ہوں اور شاعری کر سکتا ہوں۔ میرے پہلے اشعار بہت مقبول ہوئے۔
بھیگے موسم میں یاد آئی شام کے بعد
میں ہوں اور میری تنہائی شام کے بعد
میں عمرانؔ تھا ڈھلتا سورج بستی کا
ختم ہوئی میری بینائی شام کے بعد
جب ان کی پہلی غزل نے اسلام آباد تک کا سفر کیا تو کئی بڑے شاعروں نے نہ صرف داد دی بلکہ حوصلہ افزائی کی۔ خاص طور پر سیّد ضمیر جعفری نے رہنمائی فرمائی۔
سیّد آلِ عمران کو 1993ء میں اپنے کالج کے بہترین طالب علم کا اعزاز ملا۔ وہ اپنے کالج کے میگزین ”کانسی“ اور کالج گزٹ کے بھی ایڈیٹر رہے اور اپنے کالج میں ایک تنظیم ”کونپل“ کی بنیاد بھی رکھی۔ کالج کے اساتذہ میں چوہدری غلام علی، پروفیسر ضمیر جنجوعہ، پروفیسر صابر حسین، پروفیسر غلام سرور، پروفیسر ضیاء ا لرحمن راجا نے بھی ادبی دنیا میں آگے بڑھنے میں مدد کی۔ اِن ساتذہ کا تذکرہ وہ بہت مئودبانہ انداز میں کرتے۔
1995ء میں سیّد آلِ عمران کی پہلی کتاب ”موسم روٹھ گئے“ شائع ہوئی۔ یہ کتاب اُردو ماہیوں پر مشتمل تھی۔ الحمد پبلی کیشنز لاہور نے شائع کیا۔ اُردو کے معروف شاعر سیّد ضمیر جعفری نے اِس کتاب کا پیش لفظ تحریر کیا۔ ان کی اس کتاب کاا یک ماہیا جس میں وہ زندگی کی بے ثباتی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
اِترا مت سونے پر
تجھے آخر سونا ہے
ماٹی کے بچھونے پر
1996ء میں سیّد الِ عمران کے فکروفن اور شخصیت کے حوالے سے صحافی عزادار نقوی نے خصوصی مجلہ ”عکس“ شائع کیا۔ 11اپریل1999ء کو آپ کی شادی سیّدہ نرگس بی بی سے ہوئی جو ایک پڑھی لکھی سلیقہ شعار اور مدبر خاتون ہیں اور شعبہئ تعلیم سے وابستہ ہیں۔سیّد آلِ عمران نے1999ء میں ہی ایک ہفت روزہ ”صدائے پوٹھوہار“ میں بطور ایڈیٹر اور کالم نگار اپنی خدمات سر انجام دیں اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں کمپیئرنگ وغیرہ بھی کرنا شروع کر دی۔ آپ نے ”مراسم“ اور ”ساک“ پبلشرز کی بھی بنیاد رکھی اور بہت سے اہلِ علم کی کتابیں شائع کیں۔2000ء میں آپ کی ایک مرتب کردہ کتاب ”روشن چہرہ“ منظر عام ہوئی جس میں آپ نے مُحسنِ پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان کے فن و شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا2002ء میں آپ کی دو کتابیں منظر عام ہوئیں اُن میں سے ایک ”پھٹ نہ پھرول“ ہے جو پوٹھوہاری نظموں کا مجموعہ ہے۔ اُن کی دوسری کتاب ”تارا تارا لو“ مرتب کردہ پوٹھوہاری افسانوں پر مشتمل ہے۔اِس کتاب کے صفحہ نمبر 181پر سیّد آلِ عمران کا اپنا پوٹھوہاری افسانہ ”لُگے بیڑے نا ڈار“ موجود ہے۔

2003ء میں ایف ایم 97ریڈیو سن رائز پاکستان حسن ابدال کے اسٹیشن مینجر بنے۔ 2004ء میں آپ نے پوٹھوہاری زبان میں پہلا کتابی سلسلہ ”سرگ“ شائع کیا، یہ کتابی سلسلہ2004ء سے 2012ء تک جاری رہا۔27 اکتوبر 2004ء میں آپ کے اکلوتے صاحب زادے ”سیّد مرتجز حسنین“ کی ولادت ہوئی۔ 2005ء میں آپ نے ایک پوٹھوہاری میوزیکل پروگرام ”ککراں نی چھام“ میں تیرہ پروگراموں میں میزبانی کے فرائض سر انجام دیے۔2006ء میں پی ٹی وی پروگرام ”چمبہ رویل“ کی میزبانی کی۔ اِس سال برطانیہ سے پہلے پوٹھوہاری اور پہاڑی ٹی وی چینل ”آپنا دیس“ کا آغاز ہوا جس میں پروگرام ”چوپال“، ”آپنی دھرتی آپنے لوک“، ”ڈاکو منٹریز“، ”دیہاتِ پوٹھوہار و آزاد کشمیر“، مشاعرے اور دیگر خصوصی پروگرام کیے۔ 2007 ء میں آپ کے دادا سیّد ابرار حسین نقوی کی وفات ہوئی۔سیّد آلِ عمران اِسی سال ماہ دسمبر میں شدید علیل ہوگئے اور نومبر2008ء میں رو بہ صحت ہوئے۔ اِس کے بعد آپ اکثر بیمار رہنے لگے۔ اِسی دوران آپ گردوں کے عارضے میں مبتلا ہو گئے۔ 2008 ء میں آپ کو پی ٹی وی کی طرف سے بہترین کمپیئر کا ایوارڈ ملا جو آپ نے پی ٹی وی کی پہلی کمپیئر کنول نصیر کے ہاتھوں وصول کیا۔ اسی سال آپ کی مرتب کردہ نعتیہ شاعری پر مشتمل ایک کتاب ”وہی روشنی ہیں جہان کی“ منظر عام ہوئی۔ اِس کتاب کے صفحہ نمبر59 پر آپ کی نعت کے چند خوب صورت اشعار موجود ہیں:
محترم خلق، محمد ؐ کے قرینے سے ہوئی
آدمیت کی شروعات مدینے سے ہوئی
آپؐ کے پاؤں میں سر رکھا تو رُتبہ پایا
سر بلندی جو ہوئی وہ اِسی زینے سے ہوئی
آپؐ کے گھر نے جہاں بھر میں اُجالا بانٹا
روشنی آپؐ کے ایک ایک نگینے سے ہوئی
آلِ عمران زبان گُنگ تھی پہلے پہلے
یہ رواں، جامِ وِلا آپؐ کا پینے سے ہوئی
2008ء میں ہی آپ نے پی ٹی وی ہوم سے پوٹھوہاری ثقافتی ادبی پروگرام ”دھرتی نے تارے“ پیش کیا اور ریڈیو پاکستان راولپنڈی سے ادبی پروگرام ”سوچاں“ کے کمپیئر بنے۔ اِس کے علاوہ ریڈیو پاکستان راولپنڈی کے معروف زرعی پروگرام ”وسنے رہن گراں“ اور ریڈیو پاکستان کے مقبول پروگرام ”جمہور نی واز“ کی بھی کمپیئرنگ کی۔2010ء میں بھی آپ الیکٹرانک میڈیا میں خاصے مصروف نظر آئے۔ اِسی سال کے ٹو،ٹی وی اسلام آباد کے پروگرام ”جی کراں“ کی میزبانی کے فرائض سر انجام دئے اور ریڈیو پاکستان راولپنڈی سے محرم الحرام کے پروگرام بھی پیش کیے۔ 2011ء آپ کا مرتب کردہ مجلہ ”مودت“ منظر عام ہوا۔ نومبر2011ء میں ایک مرتبہ پھر آپ کی خدمات کے صلے میں آپ کو پی ٹی وی اسلام آباد سنٹر کے بہترین کمپیئر، اینکر کا پی ٹی وی ایوارڈ ملا۔2012ء میں آپ کا ایک اور مرتب کردہ مجلہ ”نسبت“ منظر عام ہوا۔ اِسی(باقی صفحہ 3نمبر04)
سال آپ نے پی ٹی وی ہوم لاہور کے پروگرام ”ورثہ“ میں میزبانی کے فرائض سر انجام دیے۔
9 اپریل تا 13 اپریل 2013ء مکہ مدینہ کے متبرک مقامات کی زیارت سے فیضیاب ہوئے اور عمرہ کی سعادت حاصل کی۔ اِسی سال کے ٹو،ٹی وی سے پوٹھوہاری زبان کی تاریخ میں پہلی بار سحر ٹرانسمشن کے پروگرام ”سرگ“ کی میزبانی کی۔ اِسی سال ماہ ستمبر میں آپ کی ایک اور مرتب کردہ کتاب ”پوٹھوہار میں اولادِ حضرت امام علی نقی ؑ“ منظر عام ہوئی جس میں خطہئ پوٹھوار کے نقوی سادات کے شجرہ نسب کو بیان کیا گیا ہے۔
2014ء میں آپ کی پوٹھوہاری شاعری پر مشتمل ایک کتاب ”سدھر“ شائع ہوئی۔ اِس کتاب کی ایک خوبصورت نظم کے چند اشعار:
اکھیاں نے پار ہِک گھار سا خورے کدھر گیا
ہِک سدھراں نا دربار سا خورے کدھر گیا
بیلے کسی نے یاد نے لُگے لغن پئے
چِڑیاں نا ہِک ڈار سا خورے کدھر گیا
ٹوئے پئی گئے اکھیاں وِچ جدائی نے
انہاں وچ خمار سا خورے کدھر گیا
اسی سال آپ کی اُردو شاعری پر مشتمل ایک اور کتاب ”کوئی عکس تھا کوئی خواب تھا“ منظر عام ہوئی۔ اِس کتاب کے صفحہ نمبر 208 کے چند درد سے لبریز اشعار:
میں تو سمجھا تھا تجھے بھول گیا ہوں، لیکن
دِل کا ہر گوشہ تیری یاد کا دفتر نکلا
بعد مرنے کے مری خواب سراء سے عمرانؔ
زخم در زخم، حکایات کا دفتر نکلا
اکتوبر 2014 ء میں ہی ابرار حسین کیانی نے آپ کی شاعری کا انتخاب کر کے اسے کتابی صورت میں مرتب کیا۔کتاب کا عنوان ”موسموں میں ڈھونڈ مجھے“ ہے۔ مارچ 2016 ء میں آپ کی ایک اور مرتب کردہ کتاب ”شہرِ علم کی خوشبو“ منظر عام ہوئی۔ آپ کی یہ کتاب فکری و علمی مضامین پر مشتمل ہے۔ دسمبر 2016ء میں ایک اور کتاب ”سلام ماں جی“ کے نام سے منظر عام ہوئی جس کو بیگم بشارت مرزا نے مرتب کیا جب کہ سیّد آلِ عمران اس کتاب کے نگران تھے۔مارچ 2017ء میں آپ پھر سے علیل ہو گئے اور بیماری اس قدر شدت اختیار کر گئی کہ شفا انٹرنیشنل ہسپتال،اسلام آباد میں آپ کے پتے کا آپریشن کیا گیا۔آپ کی آنتوں کی صفائی کی گئی۔ آپ کے معالج ڈاکٹر سیّد فرحت عباس تھے۔ اگست 2017ء میں آپ کا پہلا مرتب کردہ سفر نامہ ”خواب سمندر اور خُوشبو“ منظر عام ہوا۔ یہ سفر نامہ ناروے کے سفر کے دوران لکھا گیا۔ اِسی سال اکتوبر میں آپ کا دوسرا مرتب کردہ سفر نامہ ”دیارِ نور“ منظر عام ہوا جس میں ایران کے متعلق مفید معلومات ملتی ہیں۔اپریل 2018ء میں آپ مقامات مقدسہ، ایران، عراق اور شام کی زیارات کے لیے گئے اور واپسی پر سُنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو چہرے پر سجا لیا۔اسی سال ماہ اپریل میں ہی آپ کی ایک مرتب کردہ کتاب ”پوٹھوہاری کہانیاں“ منظر عام ہوئی۔ اس کتاب کو مرتب کرنے کی ایک بڑی وجہ خطہئ پوٹھوہار کی ماضی کی یادگار کہانیوں کو اگلی نسل تک پہنچانا تھا۔جنوری 2019ء میں ان کی ایک مرتب کردہ کتاب ”ہمارا گوجر خان“ منظر عام ہوئی جس میں انہوں نے گوجر خان کی تاریخ کے علاوہ پوٹھوہار کی نامور شخصیات کا تعارف کروایا ہے۔ اپریل 2019ء میں آپ کی ایک کتاب ”ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم“ شائع ہوئی جس میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خوب صورت انداز میں خراج تحسین پیش کیا۔ اسی سال آپ شدید علیل ہوئے اور آپ کو شفا انٹر نیشنل ہسپتال اسلام آباد میں داخل ہونا پڑا جہاں آپ کے گردے کا ٹرانسپلانٹ
ہوا۔ آپ کی زوجہ محترمہ سیّدہ نرگس بی بی نے آپ کو اپنا ایک گردہ عطیہ کیا جون 2020 ء میں دوبارہ آپ کی طبیعت ناساز ہوئی جس کی وجہ سے آپ کو شفا انٹر نیشنل ہسپتال اسلام آباد منتقل کرنا پڑا جہاں آپ دو ہفتے مسلسل وینٹی لیٹر پر رہنے کے باوجود جانبر نہ ہو سکے اورگردے کے ٹرانسپلانٹ کے ایک سال دو ماہ چوبیس دن کے بعد 25 جون 2020 ء بروز جمعرات دوپہر ایک بج کر تیس منٹ پراپنے خالقِ حقیقی کے حضور پیش ہو گئے میت کو ہسپتال سے ان کی اہلیہ سیّدہ نرگس بی بی اور قاضی محمود شوکت (معروف کاروباری شخصیت) نے وصول کیا۔ان کی نماز جنازہ اہل سنّت اور اہلِ تشیع نے الگ الگ اپنے اپنے مسلک کے مطابق ادا کی۔آپ کی تدفین رات دس بجے کوٹ سیّداں گوجر خان امام بارگاہ شاہ نجف میں کی گئی۔واضح رہے کہ ان کی وفات کی وجہ ان کے گردوں کا فیل ہونا تھی۔آپ ایک خوش لباس و خوش خصال انسان ہونے کے ساتھ ساتھ خوب صورت اور خوب سیرت انسان بھی تھے۔میرا ان سے رابطہ میرے ایم فِل کے مقالہ جس کا عنوان ”سیّد آلِ عمران کی ادبی خدمات“ کے لکھنے کے دوران ہوا۔وہ نہایت شریف النفس انسان تھے، بیماری کے باوجود میری رہنمائی فرماتے رہے اور جب بھی مجھے مقالہ سے متعلق کسی چیز کی ضرورت پڑی انہوں نے مجھے بر وقت بہم پہنچائی اور ثابت کیا کہ وہ ایک اچھے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔میں ان کے اچھے سلوک اور کردار کو کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں