columns 48

جی 20ممالک میں پاکستان کی کمی کیوں؟

جی 20 بیس بڑی اقتصادی طاقتوں کا گروپ ہے جس میں انیس ممالک اور بیسواں رکن یورپی یونین ہے۔جی20میں امریکہ روس چین بھارت‘ ارجنٹینا‘ آسڑیلیا‘ برازیل‘ کینڈا‘فرانس‘ جرمنی‘ اٹلی‘انڈونیشیا‘ جاپان‘ جنوبی کوریا‘ میکسکو‘ سعودی عرب‘ جنوبی افریقہ“ ترکی برطانیہ اور یورپی یونین شامل ہیں۔جی 20ایشیا ئی معاشی بحران کے بعد 1999ء میں قائم کیا گیا تھا بھارت کی معیشت کا حجم3736بلین ڈالر ہے جبکہ ہمارا صرف 376بلین ڈالر ہے اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں ہماری آواز مضبوط ہو تو خود کو معاشی طور پر بہتر کرناہو گا۔جی 20اگر چہ دنیا کی بیس بڑی معیشتوں کی نمائندگی کرتا ہے لیکن عالمی تجزیہ نگار اسے جی 20 قرار دیتے ہیں یعنی امریکہ اور چین دنیا کے دو بڑے ممالک جو ایک حقیقت ہے چین دنیا کی ابرتی ہوئی معیشت ہے ایک ایسی معیشت جس نے اشتراکیت کی کوکھ سے جنم لیا اور اب عالمی سرمایہ دار نظام میں مقابلے کا پارٹنر ہے۔ چین کا بڑھتا ہوا عالمی سرمایہ دار ی کرادار ہی اس کے عالمی اسٹرٹیجک کردار کو
جنم دے رہا ہے۔اس گروپ کی کی طاقت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کی معیشت کا پچاسی فیصد جی ڈی پی اور پچھترفی فیصد عالمی تجارت انہی ملکوں کی ہاتھوں میں ہے یہ ممالک دنیا کی دوتہائی آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس گروپ کا مقصد معاشی نظام کی مختلف پہلوؤں اور مسائل پر غور کرنا ہے اس میں دیر پا ترقی صحت‘ زراعت‘ توانائی‘ماحولیاتی کی تبدیلی انسداد بدعنوانی جیسے معاملات شامل ہوتے گئے ہیں یہاں سوال یہ پیداہوتا ہے۔ کہ جی20مملک میں ہم اپنی جگہ کیوں نہ بنا پائے اس کا جواب یہ ہے کی جب یہ فورم 1999ء میں موجود میں آیا تھا۔ اس وقت پاکستان دنیا کے بیس بڑی معیشتوں میں شامل نہ تھا ہم ابھی تک وہ مقام حاصل نہ کر پائے جس کی وجہ سے ہم جی 20میں اپنی جگہ بنا پاتے پاکستان خطے کی علاوہ مسلم ممالک میں بھی اپنی ایک حیثیت رکھتا ہے اور ایک ایسا ملک جو جنوبی ایشیا‘وسطی ایشیا اور مشرقی وسطی کی سنگم پر واقع ہے

اور جو پاک چین راہداری سے خطے میں گیم چینجرکی اہلیت رکھتا ہے ایک طاقتور مشینری اور ایٹمی صلاحیت رکھتا ہے ایک طاقتور مشینری اور ایٹمی صلاحیت رکھنے والاملک اور اس ریاست خلیجی اور دیگر ریاستوں کی ساتھ اس کی گہرے تعلقات اور دیگر لا تعدادوجوہات ہیں جو ریاست پاکستان کی بارے یہ پیدا کرتے ہیں اگر معیشت پر تھوڑی سی توجہ دی جائے تو جی20میں شمولیت حاصل کرنا کوئی مشکل مرحلہ نہیں ہے بھارت کی یہ پالیسی ہے کہ عالمی تجارتی منڈی کا وہ ایک بڑا سٹیک ہولڈر ہے وہ تبھی ایشیاکی اقتصادی اور فوجی قوت ہے
چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے جو اس وقت کی نوجوان کی بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور پراپرٹی کی اہم شعبے میں بحران سمیت صارفین کی کم طلب سے نمٹ رہا ہے بھارت عملاًپاک چائنا دراہدا ری سے خوفزدہ ہے چین کا کہنا ہے کہ عالمی منظر نامے میں تبدیلیوں کے باوجود چین پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے اور ہمیشہ کھڑا رہے گا سی پیک منصوبے کا پاکستان کی معاشی اور سماجی ترقی کو بحال کرنے میں اہم کردار ہے

چین اور پاکستان کی کی معاشی اور سماجی ترقی کو بحال کرنے میں اہم کردار ہے چین اور پاکستان نے اب تک سی پیک سے باہمی ترقی کے بیشمار اہداف حاصل کئے گئے ہیں یہ منصوبہ دونوں ممالک کے درمیان مضبوط دوستی کی واضح سند ہے چین نے سعوسی عرب اور ایرا ن
کو ایک میز پر بٹھادیا ہے اور ان کی درمیان تعلقات بحال کروا دئیے دنیا معا شی مفادات کی تاریخ ہے عالمی تعلقات میں جزبات سے معاشی معاملات
دیکھے جاتے ہیں بد قسمتی سے ہماری ترجیحات مختلف ہیں ہمیں معلوم نہیں کہ کرنا کیا ہے ارجنٹینا کی معیشت تباہ ہو گئی ہے وہ ڈیفالٹ کر گیا مگر دوبار ہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا ہے اور جی 20کا رکن بن گیا عالمی سیاست و معیشت بچوں کا کھیل نہیں جنگ سیکورٹی کے معا معلات جذبات یا دوستی سے نہیں بلکہ معیشت ٹیکنا لوجی اور اسمارٹ فورسز سے حل ہوتے ہیں ہمیں خود کو معاشی طور پر مضبوط کرنا ہوگا ہم دنیا میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں ہمیں خود کو ٹھیک کرنا ہو گا اور ملک میں معاشی استحکام لانا ہو گا اس سے معاشی استحکام آئے گا اور ہمیں بھی اپنی علاقائی ممالک کی ساتھ الائنس کو فروغ دینا ہوگا چین اور بھارت تمام تر احتلافات کی باوجود باہمی تجارت میں اضافہ کر رہے ہیں امریکہ اور مغربی یورپ چین کا گھیراؤ کر رہے ہیں لیکن ان کی درمیان تجارت جاری ہے ہمیں چین اور دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کو بہتر کرنا ہو گا اور اپنی معیشت کو مضبوط کر کے جی20کا رکن بننا ہو گا پاکستا ن کے اقتدار پر قابض وہ طبقہ کا خمیر جنرل ایوب خان کی اقتدار پر قبضے سے اٹھا اس طبقے نے سرد جنگ کی فوائد سمیٹنے اور مقتدر بن گئے اس طبقے کی ریشہ دانوں کا نتیجہ مشرقی پاکستان کی علیدگی کی صورت میں نکل کر ملک دولخت کردینے کے باوجود ایوب خان کی قیادت نے کوئی سبق نہیں سیکھا

اور مسلسل پاکستان کی عوام کے خلاف کام کیا ایوب خان کی یہ قیادت نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور مسلسل پاکستام کی عوام کے خلاف کام کیا ایوب خان کی یہ باقیادت ضیاالحق اور پرویز اشرف کے ساتھ شامل ہوئی یہ دولت مند اشرافیہ خود تو مغربی تہذیب اپنائے ہوئے ہے لیکن ملک کو مذہبی انتہا پسندی کے شکنجے میں جکڑنے میں پیش پیش رہی ان کی یہ سوچ اور ان کا اقتدار پاکستان کو آگے لے کر چل نہیں سکتا نئے اور پرانے پاکستان کے چکر میں ہم ایک عجیب پاکستان میں آگئے ہیں آخر ہم کس جانب جا رہے ہیں موجودہ سسٹم ڈگمگارہا ہے قومی سا لمیت کو کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے ریاست کے تینوں ستون عدلیہ انتظامیہ مققنہ منقم ہیں گزشتہ حکومتوں سے لگائی گئی تمام تر امیدوں نے دم توڑ دیا ہے اقربا ئپروری کی لعنت رشوت وسفارشیں جنم لے رہی ہے اور ہمارے حکمران ہماری سیاست ہماری سیاسی قیادت خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی ہے سوال یہ ہے کہ ہم غفلت کی نیند سے کب بیدار ہو ں گے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں