224

جنسی بھیڑئیے معاشرے کے ناسور

ثاقب شبیر شانی /کراچی میں ایک پانچ سالہ بچی بسکٹ لینے کے لئے گئی۔ بچی کو اغواءکرنے کے بعد اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بناکر قتل کیا گیا اور پھر اس کی لاش کو جلا دیا گیا۔ بروز منگل ایک خاتون اپنے تین بچوں کے ہمراہ صوبائی دارلحکومت لاہور سے بذریعہ موٹر وے گوجرانوالہ کے لئے روانہ ہوئی جب اسکی گاڑی میں پٹرول ختم ہو گیا اور اسے رکنا پڑا‘ خاتون گاڑی لاک کر کے مدد کے انتظار میں بیٹھی تھی اچانک ایک موٹر سائیکل اسکی گاڑی کی کھڑکی کے سامنے آ کر ر±ک گیاجس پر قریباً تیس سال کی عمر کے دو افراد سوار تھے انہوں نے اسکی گاڑی کا شیشہ توڑا عورت کو اسکے بچوں کے سامنے گاڑی سے زبردستی کھینچ کر باہر نکالا اور گھسیٹتے ہوئے جنگل میں لے گئے اسے متعدد بار زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر اس خاتون کے اے ٹی ایم کارڈ‘ زیورات اور نقدی لوٹ کر فرار ہوگئے۔پے در پے ان دو واقعات پر ملک بھر میں عوام کا غصہ ساتویں آسمان پر ہے‘ وطن عزیز ایسے ذہنی مریضوں اور جنسی درندوں کی آماجگاہ بن چکا ہے جہاں آئے روز ایسے واقعات رونماءہوتے رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کڈز رائٹ فاونڈیشن کے مطابق بچوں کے حقوق کے حوالے سے پاکستان دنیابھر کے ایک سو بیاسی ممالک میں ایک سو سینتالیسویں درجے پر ہے‘ جس سے اندازہ ہوتا ہے ذاتی مفاد پرمبنی تحریکیں چلانے والی حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں نے اس ضمن میں کس قدر مضبوط قانون سازی کی ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ حد درجہ بڑھتے ان جرائم کی روک تھام کے لئے تمام قوتیں مل کر ایسے قوانین وضع کرتیں کہ جن کے تحت دی جانے والی عبرتناک سزاو¿ں کے تصور سے ہی کسی درندے کے ذہن میں مکروہ فعل کا خیال ابھرنے سے پہلے ہی دفن ہو جاتا‘ مگر ہوا یہ کہ سی سی پی او لاہور عمر شیخ کی میڈیا کے ساتھ گفتگو نے جلتی پر تیل کام کیا‘ جس میں انہوں نے مظلوم پر بار ظلم ڈالتے ہوئے کہا کہ ایک عورت رات گئے اکیلی سفر پر نکلی ہی کیوں؟ اگر نکلی تو اس نے پیٹرول چیک کیوں نہ کیا۔ اس بیان کا شدید عوامی رد عمل سامنے آیا انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ، “زناءبالجبر جیسے جرم کی کوئی عقلی دلیل نہیں دی جا سکتی”جبکہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی ٹویٹ میں کہا ” اسطرح کی بربریت اور درندگی کی مہذب معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں” متعلقہ ادارے قصورواروں کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچائیں۔ قارئین زینب کیس ہو پنجاب میں پندرہ رکنی گروہ کا دو سو اسی چودہ سال سے کم عمر بچوں کے ساتھ بدفعلی کی ویڈیوز بنا کر بچوں اور والدین کو بلیک کر کے تاوان لینے کا کیس ہو یا ہمارے معاشرے میں عمومی طور رپورٹ نہ ہونے والے روز مرہ کے عورتوں اور بچوں کے ساتھ ہونے والے اغواءجنسی تشدد زیادتی کے واقعات انکے سبب عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا اور غم و غصہ بڑھتا چلا جا رہا ہے جس کا اظہار ملک بھر میں احتجاج کے ذریعے کیا جا رہا ہے احتجاج کرنے والوں میں ملک کی نامور شخصیات بھی شامل ہیں سوشل میڈیا بھی اس غم و غصے کی غمازی کر رہا ہے سول سوسائٹی ایسے جنسی بھڑیوں سے نجات چاہتی کہ ان کے بچے انکی عورتیں ان درندوں کی ہوس کہ بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور یہ بھڑئیے ہوس کی رالیں ٹپکاتے اسی معاشرے میں آزادانہ گھومتے ہیں ، معاشرے کاہر ایک ذی شعور شخص چاہتا ہے کہ ارباب اختیار حکومتی ہوں یا اپوزیشن اپنے مفاد میں بڑی بڑی تحریکیں چلاتے ہیں ایسی قانون سازی کیوں نہیں کرتے کہ جس کا تصور ہی جنسی درندگی کے کیڑے کو مار دے‘ اپنے وزیر فیصل واوڈا کا مطالبہ ہی مان لیں کہ ایسے درندوں کو اگر سر عام سزائے موت نہ دی جا سکے تو کم از کم ان کے اعضائے تناسل معطل کر دئے جائیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں