تحصیل آفس، جو عوام کی سہولت کے لیے قائم کیا جاتا ہے، دراصل کسی بھی علاقے کے انتظامی ڈھانچے کا سب سے بنیادی اور اہم ستون ہوتا ہے۔ مگر افسوس کہ کہوٹہ کا تحصیل آفس آج ایک ایسی دلدل میں تبدیل ہو چکا ہے جہاں عوام کی سہولیات نہیں بلکہ چند افراد کے مفادات پروان چڑھتے ہیں۔ سرکاری اداروں پر عوام کا اعتماد اسی لیے متزلزل ہوتا ہے
کہ جب وہاں انصاف، شفافیت اور خدمت کے بجائے کرپشن، کمیشن اور سفارش کا نظام چلنے لگے۔ کہوٹہ میں یہی صورتحال جڑیں پکڑ چکی ہے، اور اسے ختم کرنا انتظامیہ کے لیے ایک بہت بڑا امتحان بن چکا ہے۔گزشتہ کئی ماہ سے عوامی حلقوں کی جانب سے مسلسل شکایات سامنے آرہی ہیں کہ تحصیل آفس کہوٹہ میں پراپرٹی نشیون، کمیشن مافیا اور کرپشن کا ایسا جال بچھا دیا گیا ہے جس سے نکلنا ایک عام شہری کے بس کی بات نہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ یہاں پر کام سیدھا ہو یا قانونی، بغیر کمیشن اور سفارش کے آگے نہیں بڑھتا۔
سرکاری معاملات، خاص طور پر رجسٹری، فرد، انتقال اور وراثتی کارروائیاں چند مخصوص افراد کے ہاتھوں میں یوں یرغمال ہیں کہ عوام صبح سے شام تک خوار ہو کر بھی ”ملکِ کہوٹہ“ کے اس بدنام ترین دفتر سے مطمئن نہیں نکلتے۔شہریوں کے مطابق رجسٹری کے نام پر سات ہزار سے آٹھ ہزار روپے اضافی رقم لینا اب معمول بن چکا ہے۔ اگر کوئی شخص اعتراض کرے تو جواب میں کہا جاتا ہے کہ“یہی طریقہ کار ہے، ورنہ آپ کا کام نہیں ہوگا۔
”یہ جملہ بتاتا ہے کہ غیر قانونی کام اب قانون بن چکا ہے۔ زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ چند کلرکوں، پراپرٹی نشیون اور بااثر لوگوں کے گٹھ جوڑ سے ہو رہا ہے، جبکہ متعلقہ افسران صورتحال سے مکمل طور پر آگاہ ہونے کے باوجود خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔تحصیل آفس کا منظر نامہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ صبح کے وقت شہریوں کا ہجوم، ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک دوڑتے لوگ، قطاروں میں کھڑے بوڑھے، عورتیں، اور نوجوان سب ایک ہی سوال کرتے نظر آتے ہیں:”ہماری باری کب آئے گی؟“مگر یہاں باری آنے کا فیصلہ قطار نہیں، بلکہ کمیشن طے کرتا ہے۔ جو شخص زیادہ رقم دے، اس کا کام پہلے، اور جو غریب ہو، وہ دیوار کے ساتھ گھنٹوں کھڑا رہے۔یہ صورتحال صرف رجسٹری تک محدود نہیں۔ وراثتی ریکارڈ، انتقال فائلنگ اور فرد کے معاملات بھی چند مخصوص افراد کے ذریعے ہی نمٹائے جاتے ہیں۔ تحصیل آفس میں بیٹھے یہ بااثر لوگ عوامی ریکارڈ تک کھلے عام رسائی رکھتے ہیں،
جس کی وجہ سے ریکارڈ کی حفاظت اور شفافیت پر وسیع سوالیہ نشان اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ حساس سرکاری ریکارڈ کی اس طرح بے ضابطگی سے عوام کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہر وقت موجود رہتا ہے۔مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ ڈیجیٹل سسٹم ADRS یا ڈیجیٹل ڈاؤن لوڈنگ جیسے اہم سرکاری کام بھی کھلے عام نہیں کیے جا رہے۔ یہ کام مناسب جگہ پر کرنے کے بجائے ایک الگ کمرے میں مخصوص افراد کے ذریعے کرایا جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے کسی ریاست کے اندر ایک دوسرا“راستہ نظام”چل رہا ہو، جہاں عام شہری کی رسائی ممنوع، مگر کمیشن مافیا کی رسائی مکمل ہے۔ یہ صورتِ حال نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ سرکاری قوانین کی کھلی خلاف ورزی بھی ہے۔اگر اس غیر منصفانہ نظام پر بات کی جائے تو بااثر لوگ ناراض ہو جاتے ہیں۔ کئی شہریوں نے بتایا کہ اگر وہ کسی زیادتی کی شکایت کرتے ہیں تو ان کا کام فوراً روک دیا جاتا ہے۔ غریب آدمی کے لیے یہ دھمکی کسی عذاب سے کم نہیں کہ اسے ایک معمولی سی فائل کے لیے کئی کئی دن دفتر کے چکر لگانے پڑیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟کیاعوام قصوروار ہیں کہ وہ اپنے ہی سرکاری اداروں میں رسائی سے محروم ہیں؟ کیا یہ کام تحصیلدار، نائب تحصیلدار، رجسٹری محرر اور دیگر متعلقہ افسران کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ اس مافیا کے خلاف کارروائی کریں؟ لیکن افسوس کی بات ہے کہ ابھی تک کوئی عملی قدم نظر نہیں آیا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اعلیٰ حکام:بالخصوص کمشنر راولپنڈی، ڈپٹی کمشنر راولپنڈی اور اینٹی کرپشن حکام اس معاملے کا فوری نوٹس لیں۔ تحصیل آفس کو عوام کے لیے کھولا جائے، کمیشن مافیا کو ختم کیا جائے، ریکارڈ کو محفوظ بنایا جائے، ڈیجیٹل سسٹم کو فعال کیا جائے، اور سب سے بڑھ کر وہ لوگ جو عوام کے نام پر سرکاری تنخواہیں لیتے ہیں مگر عوام کے دشمن بن بیٹھے ہیں، ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔کہوٹہ کے عوام نے ہمیشہ قانون کا احترام کیا ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ انہیں بھی وہی احترام واپس ملے۔ سرکاری ادارے عوام کے لیے ہوتے ہیں، چند افراد کے لیے نہیں۔ اگر تحصیل آفس کی اس دلدل کو ختم نہ کیا گیا تو بدعنوانی کا یہ سلسلہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی اسی طرح وبال جان بنا رہے گا۔کہوٹہ کے شہری انصاف، شفافیت اور اپنے جائز حقوق کے منتظر ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اعلیٰ حکام ان کی آواز سنتے ہیں یا ایک بار پھر فائلوں اور کمیشن کے بیچ ان کی امیدیں دب کر رہ جاتی ہیں۔
ارسلان اصغر کیانی