تحریر:طالب آرائیں
ہم جس معاشرے میں زندہ ہیں وہاں اکثریت کا شعار جھوٹ ہے اور یہاں بلاملاوٹ سچ کم ہی سننے کو ملتا ہے۔یہاں جھوٹ‘ملاوٹ زدہ سچ اور مکروفریب کی ایسی ایسی گتھیوں میں الجھے ہوئے لوگ موجود ہیں جو اپنے فائدے اور مفاد کی خاطر کسی کی تکلیف ومصیبت کو خاطر میں نہیں لاتے ذاتی انا اور رنجش کے باعث کسی کی بھی عزت کو داؤ پر لگانے کے عمل کو بھی معیوب نہیں سمجھتے۔خواہشات کی تکمیل اور آسائش بھری زندگی کی تمنا انسانی کمزوریوں میں سے ایک بڑی کمزوری ہے ہر شخص اپنی زندگی کو ضرورت کی ہر سہولت سے آراستہ دیکھنا چاہتا ہے لیکن اپنے خوابوں کا محل کسی کی عزت کو سرعام نیلام کر کے تعمیر نہیں کیا جاسکتا‘ جھوٹ‘ فریب اور ریاکاری کے مارے اس معاشرے میں جذبات میں تلاطم پیدا کرتے احساسات اور زندگی میں تہلکہ مچاتے واقعات اب روز کامعمول بن چکے ہیں ملک بھر میں جنسی ہراسگی اور اجتماعی زیادتی جیسے واقعات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔لیکن ایسا بھی نہیں کہ ہر واقعہ من وعن اسی طرح ہو جیسا کہ بیان کیا جارہا ہو زیادہ تر واقعات انا‘دشمنی اور نفرت کی وجہ سے جھوٹے واقعات پر مبنی ہوتے ہیں۔جو جھوٹ ثابت ہونے پر بھی میڈیا میں اس طرح رپورٹ نہیں ہوتے جس طرح جھوٹے واقعات کو کوریج دی جاتی ہے کیونکہ میڈیا بھی صرف سنسنی خیزی پیدا کرکے اپنا چورن بیچتا ہے۔گذشتہ دنوں یوم دفاع کے روز بیول میں ہونے والا ایک واقعہ سوشل میڈیا کی زینت بناجس میں ایک خریدار خاتون نے بیول کے دو نوجوانوں خالد محمود اور عمران علی پرسامان کی خریداری کے دوران دوکان کے اندر زیادتی کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا۔ درج کروائی جانے والی ایف آئی آر کے مطابق گوجر خان کے محلہ جھنڈا وارڈ نمبر 27کی رہائشی خاتون شمع نورین نے موقف اپنایا کہ وہ گوجر خان سے اپنی بہن کے یہاں بیول آئی ہوئی تھی جہاں سے وہ سامان کی خریداری کے سلسلے میں جہیز سینٹر گئی جہاں دوکان میں خالد اور عمران موجود تھے جنہیں خاتون گاہگ ہونے کے ناطے پہلے سے جاننے کی دعویٰ دار ہے۔خاتون کے مطابق دوران خریداری باہر سے کسی نامعلوم پٹھان نے دوکان کا شٹر بند کردیا اور دوکان میں موجود دونوں نوجوانوں نے اس کا ریپ کیا۔کہانی بہت ہی دلچسپ ہے مذکورہ دوکان (جہیزسنٹر) گوجر خان روڑ پر اس جگہ واقعہ ہے جہاں بیول اڈے کی جانب جانے کے لیے سڑک ٹرن لیتی ہے۔سامنے اور برابر میں مزید دوکانیں بھی موجود ہیں۔کیا خاتون نے خاموشی سے زیادتی کو قبول کیا یا بچنے کے لیے کوئی جہدوجہد یا شور شرابہ کیا ایف آئی آر میں اس کا ذکر نہیں اگر ملزمان نے خاتون کا منہ بند کر رکھا تھا تو خاتون نے دوکان سے باہر نکل کر اردگرد کے لوگوں کو خود سے ہونے والی زیادتی بارے گواہ بنایا۔ایف آئی آر اس پر بھی خاموش ہے۔ خاتون نوجوانوں سے گفتگو کے دوران ا تنی گہری نظر رکھتی ہیں کہ شٹر گرانے والے کی کاسٹ(پٹھان) تک پہچان لیتی ہیں لیکن شٹر گرنے پر کسی قسم کا شور شرابہ کرنے سے گریزاں رہتی ہیں۔یہ ایک سوالیہ نشان ہے کیونکہ واقعہ رونما ہونے کا وقت دن گیارہ بجے بتایا جاتا ہے۔معاشر ے میں یقیناً حیوانیت موجود ہے لیکن کیا ایسا ممکن ہے کہ دن دیہاڑے بازار میں واقع کسی دوکان میں کسی خاتون کا ریپ ہوجائے اور کسی کو خبر تک نہ ہوپائے۔دوسری جانب نامزد ملزمان میں سے ایک ملزم خالد محمود نے اپنی عبوری ضمانت کروا لی ہے ملزم خالد کے مطابق وہ چھ ستمبر واقع والے دن گوجرخان میں اپنے کسی شہید عزیز کی قبرپر آرمی کیجانب سے منعقدہ تقریب میں موجود شریک تھا جس کے درجنوں چشم دید گواہ موجود ہیں اور فون لوکیشن بھی ثبوت کے طور دستیاب ہے دوسرا ملزم عمران علی اور مبینہ طور شٹر بند کرنے کے الزام میں نامزد پٹھان نوجوان گرفتار کر لیے گئے ہیں۔جہیز سینٹرکا اونر خالد محمودہے جس کا کہنا ہے کہ اس روز اس کی دوکان بند تھی اور اس کے پاس چھ ستمبر کے روز گوجرخان میں اپنی موجودگی کو ثابت کرنے کے لیے کافی مواد موجود ہے اور ملزم از خود اپنا میڈیکل کروانے کے لیے بھی بضد ہے جبکہ اطلاعات ہیں کہ عمران علی نامی گرفتار ملزم کے عزیز مبینہ طور پر میڈیکل کے بجائے معاملہ کو باہمی طور مل بیٹھ کر حل کرنے کے خواہاں ہیں۔جہیز سنٹر کے اونر خالد محمود کا کہنا ہے کہ باہمی طور پر مل بیٹھ کرمعاملے کو ختم کرنے کا مطلب اپنے پر لگے الزام کو قبول کرنے کے مترادف ہے۔اس لیے کم ازکم وہ اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچا کر خود کو بے گناہ ثابت کرے گا۔درج ایف آئی آر کو پڑھیں اور ملزم خالد محمود کے گوجرخان موجودگی کے ثبوت دیکھیں توکم از کم ملزم خالد محمود کے خلاف الزام کی صحت پر شکوک وشہبات پیدا ہوتے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ پولیس اپنی تفتیش میں ملزمان کا میڈیکل کب کرواتی ہے کرواتی بھی ہے یانہیں کیونکہ اس کیس میں خاتون سمیت ملزمان کا میڈیکل ہی کیس کے رخ کا تعین کرے گا۔