راجہ اعزاز عظیم
جون کی تپتی اور جھلسا دینے والی دوپہر میں گاڑی کو کانپتے ضعیف ہاتھوں سے اشارے سے روکتے ہوئے ایک قریبی رشتہ دار جن کو میں خالہ بولتا ہوں نے اپنے دوپٹے کے پلو کی گرہ کھولتے ہوئے پسینے سے بھیگے ہوئے،مڑے تڑے نوٹ میری مٹھی میں دباتے ہوئے خالص پوٹھوہاری زبان میں کہا ”اے ماڑیا پترا، ادھر بن(تالاب) بنانے پے ھو۔بوں چنگا کم آ۔ماڑی طرفوں وی حصہ پائی سوڑیا وے بوڑھ نے بوٹے نا وی کج کریا وے قاضی اور ساڑے امام اے،انھاں نے قبرستان اپر بوڑھ نی چھاں ضروری اے۔کسے کی ماڑا ناں نہ دسیاں‘ماڑے کول پیسے تھوڑے۔(میرے بیٹے قدیمی تالاب بنا رہے ہو،بہت اچھا کام ہے،میری طرف سے بھی کچھ حصہ ہے،بوڑھ کے درخت کا بھی کچھ کرنا تاکہ قابل احترام قاضی صاحبان جو ہمارے امام ہیں انکا قبرستان ساتھ ہے وہاں سایہ رہے۔میرے پاس ذیادہ رقم نہ ہے میرا نام کسی کو نہ بتانا)جی خالہ ضرور اور میں نے بغیر دیکھے، پیسے جیب میں ڈالے اور گاڑی چلا دی۔بوھڑ کا یہ درخت میری پیدائش سے بھی لگ بھگ 200 سال قبل کا ہے اور بھکڑال گاوں کی نشانیوں میں یہ درخت اور اسکے ساتھ ساتھ تالاب (بن) سرفہرست ہیں۔یہ درخت کتنے لوگوں کو دھوپ بارش سے بچانے کے علاوہ خوشی‘غمی‘ماتم‘جنازہ اور سڑک کے حادثات و واقعات کا گواہ اور شاھدہے۔ دادی جان مرحوم بتایا کرتی تھیں کہ جب دادا جان 1964 میں بلوچستان کے ضلع قلات میں بطور سب انسپکٹر پولیس مقابلہ میں شہید ہوئے تو دادا کے والد صاحب یعنی میرے پردادا مرحوم راجہ نعمت اللہ اپنے 35 سالہ جوان شہید بیٹے راجہ بشیر احمد شہید کی میت لینے بذریعہ ٹرین قلات روانہ ہوئے اور 6 دن کی انتہائی تگ و دو کے بعد جوان بیٹے کی میت لیکر واپس آئے۔آج جب میں سوچتا ہوں کہ بوڑھے باپ کے لیے جوان بیٹے کی میت کو دوسرے صوبے سے اپنے بوڑھے اور ناتواں کندھوں پر ان مشکل حالات میں اپنے گھر واپس لانے کیلئے پہاڑ جیسا حوصلہ اور ہمت چاہیے ہو گی جوان اولاد کی میت کا دل‘دماغ اور روح پر بہت وزن ہوتا ہے جسکو اٹھانا انتہائی بڑے دل اور جگر کا کام ہے مگر پردادا جان کا حوصلہ تو اس لیے بھی کوھمالہ کی طرح بلند تھا کہ دادا جان کی شہادت کے یکے بعد دیگرے 30 اور 35 سال عمر کے درمیان کے 2 مزید جوان بیٹے بھی خالق حقیقی سے جا ملے اور سب سے چھوٹا بیٹا راجہ منور 1971 کی پاک بھارت جنگ میں پنجاب پولیس میں بطور سب انسپکٹر SHO تھانہ مون گنج بنگلہ دیش میں بھارت کے خلاف لڑتے ہوئے جنگی قیدی بن چکے تھے۔اس کرب کا اظہار میرے پردادا بستر مرگ پر بھی ان الفاظ کے ساتھ کرتے رہے کہ ” میرے شیرو! میں نے ایسے مرنا نہیں تھا، مگر تمہاری یکے بعد دیگرے جوان اموات نے مجھے اندر ہی اندر کب کا مار دیا تھا”مگر پھر بھی رب کی رضا پر راضی اور اسکا شکرگزار ہوں کہ میں ”شھید اور غازی” کا باپ ہوں۔خاک و خوں کا یہی رشتہ ہی تو میرا فخر ہے۔بہرکیف ان قیامت خیز 6 دنوں میں میری دادی اپنے اکلوتے بیٹے(میرے والد راجہ طاہر بشیر) جنکی عمر اسوقت لگھ بگھ 7/6 سال کی تھی اور ساری برادری کے ساتھ اس بوہڑ کے درخت کے نیچے صبح شام بیٹھ کر شہید کے جسد خاکی کا انتظار کرتے گزارتی تھیں۔اسی بوہڑ کے نیچے ہماری برادری کے چاچے‘ تائے‘مامے اور بزرگ اپنی جوانی میں اسکی لٹکتی جھالر نما ٹہنیوں سے جھول کر بن میں غوطہ لگاتے اور تیراکی کرتے۔شاید ایک مرتبہ ڈوبنے کا ناخوشگوار اور افسوسناک واقعہ بھی ہوا۔کپتان یوسف‘ماسٹر اشرف‘بابو جمیل‘تایا سرور‘ تایا رفیق‘چاچا خورشید‘چاچا عدالت‘ماسٹر عنایت‘ نمبردارمحمد خان‘ایڈووکیٹ راجہ بشیر‘راجہ محمودالحسن‘ راجہ مجید‘راجہ حمید‘ناصر بھائی‘شکیل شہید‘راجہ نعمت اللہ‘بابو نوشیروان‘راجہ بشیر شہید‘راجہ علی احمد‘راجہ طورا خان‘راجہ اقبال‘باوا منصب دار‘باوا ایوب اور حاجی لعل کی طرح کے بے شمار انمول اور نگینے لوگ اس دنیا سے پردہ فرما چکے ہیں جنکی زندگی کی خوشیاں غم اور واقعات کی گواہ یہ بوہڑ کا درخت ہے جو اپنے اندر بیشمار حشرات‘پرندوں اور غیبی مخلوقات کی رہائش بھی رکھتی ہے۔ بچپن میں میری والدہ محترمہ جو سرکاری سکول میں استانی تھی‘مجھے اٹھا کر اس بوہڑ کے نیچے سکول بس کا انتظار کرتی تھیں۔سکول جانا شروع کیا تو چاچا عبدل خالق کے ساتھ انکی سوزوکی میں جانے کے لیے سکول کا بستہ لگائے اسی بوہڑ کے نیچے کھڑا ہوتا تھا۔اسی طرح اس بن (تالاب) کو ہماری نانیوں‘دادیوں نے اپنے ہاتھوں سے چھوٹے اوزاروں کی مدد سے کھود کھود کر تیار کیا تاکہ آنے والی نسلوں کو (ہمارے لیے) زیر زمین صاف پانی کا زخیرہ موجود رہے 14 جون 2022 کو بن اور بوہڑ کے درخت کی ازسرنو تزین و تعمیر کے دوران اسی بوہڑ کے نیچے سایہ میں چارپائی پر بیٹھ کر اسکی جڑوں میں بن سے نکالی ہوئی زرخیز مٹی ڈلوا کر ٹریکٹر اورہاتھ کی مدد سے درست کرتے ہوئے عجیب خوشی کے ساتھ ساتھ اپنے جذبات‘احساسات‘سوچ‘سمجھ،شعور اور لاشعور میں ہلچل کے ساتھ ساتھ تسکین قلب اور سکون بھی عنایت ہوا۔بوہڑ ”ماں جائی” کا احساس دے رہی تھی۔ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میں اپنی دادی یا بے جی کے پاؤں دبا رہا ہوں اور بوہڑ بلکل ”دادی جان” کی طرح مجھے خوشی سے اپنی آغوش میں بلا رہی ہو کہ آ جاو میرے بیٹے! آخر تمہیں میرا احساس ہو ہی گیا ہے۔تم نے بھی تو ایک دن میرے سامنے والی زمین کے نیچے اپنے ابا واجداد کی طرح آ کر ابدی نیند سونا ہی ہے زندگی تو فقط ایک سسکی سے شروع ہوکر ایک ہچکی پر ختم ہو جانے والا مختصر ترین عمل ہے جو ہمیشہ خاک کے اوپر سے شروع ہو کر خاک کے اندر ختم ہوتا ہے۔خاک سے بنے انسان کو تب تک سمجھ نہیں آتی جب تک خاک کی خوراک نہیں بن جاتا اس راز کو پا کر میں اس وقت بوھڑ کے مضبوط تنے کے سامنے کھڑا خود کو ہلکا پھلکا اور زندگی کے خطرات سے ایسا محفوظ محسوس کر رہا تھا۔جس طرح بچپن میں جب میں روتا ہوا دادی کی گرم گود میں انکی چادر کے اندر گھس کر دنیا کی ساری پریشانی اور خطرات سے بچ جایا کرتا تھا اور تمام پریشانی بھلا کر اپنے آپ کو مضبوط ترین اور محفوظ ترین محسوس کیا کرتا تھا۔ اپنی مٹی اور اپنوں کی محبت بھی کیا محبت ہے اسکا احساس بھی بن کی مٹی کی کھدائی کے دوران ہوا۔اس مٹی کا قرض ہم شاید کبھی بھی نہ اتار سکیں گے۔سنا ہے کہ رشتوں کی قدر اور مٹی کی قیمت اپنے سے دور جانے اور بلخصوص دیار غیر میں لوگوں کو ہی سمجھ آتی ہے مگر میں تو کبھی اپنے ملک سے باہر بھی نہ گیا ہوں آخرکار اس بن کی کھودی ہوئی اور بوہڑ کے گرد لگتی ہوئی مٹی نے یہ عقد بھی مجھ پے عیاں کر دیا اور شدت سے دیار غیر میں موجود بھائی راجہ فیصل اور بھائی طارق کی یاد دلا دی اور دیر تک انکے ساتھ گزرا ہوا بہترین وقت یاد آتا رہا۔بوہڑ کے نیچے ہی چارپائیوں پر بیٹھ کر لسی پیتے ہوئے تمام لوگوں نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ انشاللہ بہت جلد بن اور بوہڑ کہ درمیان روڈ پر ”شہدائے بھکڑال”کے نام سے ایک بورڈ نصب کیا جائے گا جس پر راولپنڈی پولیس کی طرز پر راجہ محمد حسین شہید،راجہ اکرم شہید،راجہ بشیر احمد شہید،راجہ شکیل آزاد شہید کی تصاویر اور تفصیل درج ہوں گی۔دراصل یہی شہدا ہی تو ہمارا اصل فخر ہیں۔یہی تو وہ سپوت ہیں جنہوں نے اپنے ملک اور مٹی ک لیے جان دینا قبول کر لیا لیکن دشمن کو ایک قدم آگے نہ آنے دیا۔ میں ان تمام باتوں کے دوران ایک گہری سوچ میں کھویا ہوا تھا،اپنے والد اور برادری کے سامنے اس لیے بھی نہ بول سکا کہ والد محترم کو اپنے پر دادا کی طرح دکھ اور تکلیف میں مبتلا کرنے کا تصور بھی نہ کرنا چاہتا تھا مگر شہید کے پوتے کا دل تو شدید جذبات میں، پسلیوں کے پنجرے میں چیخ چیخ کہ کہہ رہا تھا کہ اس بورڈ پر مزید گنجائش لازمی چھوڑ دینا،مگر زبان مصلحت کا شکار تھی۔شاید میری مٹی کو کبھی میرے خون کی ضرورت پڑے اور میں بھی اس قابل فخر بورڈ پر لال حروف سے لکھا جاؤں۔دل سے شہادت کے عظیم رتبے کے لیے دعا نکلی تو ایسا محسوس ہوا کہ بوہڑ نے میری دعا سن لی اور گرم ہوا اور لو سے اسکے ہلتے ہوئے پتے اور ڈالیاں پھڑپھڑانے لگے اور گمان ہونے لگا کہ بوہڑ مسکراتے ہوئے مجھ سے سرگوشی کرتے ہوئے کہہ رہی ہو کہ بیٹا!تم نے میری خدمت کی ہے۔میں تم سے راضی ہوں۔اللہ ضرور تمہاری مراد پوری کرے گا اور ہاں اس بورڈ پر تمہارا نام آیا تو میں اس پر اپنا سایہ ضرور کروں گی۔میرے بیٹے! شہادت سے بڑا مقام اور کیا ہو سکتا ہے۔یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔مقدر والوں کو نصیب ہوتا ہے۔ہتھیار مرد کا زیور ہے اور موت سے نکاح دلیر،جرات مند اور مقدر والے مرد ہی کرتے ہیں۔اس سوچ کے ساتھ ہی دل کو اطمینان مل گیا۔
کل جب لباس بدلتے ہوئے اتفاق سے ہاتھ جیب میں گیا تو 20 اور 50 کے 2مڑے تڑے بوسیدہ سے نوٹ ہاتھ میں آئے تو جسم اور روح کو شدید جھٹکا لگا۔بھاگم بھاگ گاڑی نکالی اورراولپنڈی سے گاؤں پہنچا۔غیرمحسوس انداذ سے خالہ کا نام چھپاتے ہوئے وہ 2 بابرکت نوٹ حساب کتاب والی کاپی میں لکھے بغیر ہی بوہڑ اور بن کی تعمیر و تزئین میں لگا کر سکوں ملا اور ساتھ ساتھ ذہن میں حضرت ابراہیم علیہ سلام کا وہ واقعہ آ گیا کہ جب انکو آتش کدہ میں زندہ ڈال دیا گیا تو ایک چڑیا اپنی چونچ میں پانی کے 2 قطرے لیکر لپکی تو کسی نے چڑیا سے پوچھا کہ 2 بوند پانی سے آگ کیسے ختم ہوگی تو چڑیا نے کہا کہ روز قیامت میرا نام تو آگ بجھانے والوں کی فہرست میں آئے گا نا۔بیشک اللہ ہی نیت اور دل کے حال پر اجر دینے والا ہے۔خالہ کے دے ہوئے یہ بوسیدہ نوٹ اپنے اندر خلوص اور صاف نیت کا خزانہ رکھتے تھے جس کے سامنے قارون کا خزانہ ھیچ محسوس ہو رہا تھا۔ خالہ کے نام کا تجسس رکھنے والوں کے لیے صرف یہی الفاظ ہیں۔
کسی بشر میں ہزار خامی
اگر جو دیکھو تو چپ ہی رہنا
کسی بشر کا جو راز پاؤ یا عیب دیکھو
تو چپ ہی رہنا
اگر منادی کو لوگ آئیں
تمہیں کُریدیں تمہیں منائیں
تمہاری ہستی کے گیت گائیں
تمہیں کہیں کہ بشر میں دیکھی برائیوں کو بیان کر دو
تو چپ ہی رہنا
جواز یہ ہے دلیل یہ ہے
ضعیف لمحوں کی لغزشوں کو
حرام ناطے کی قربتوں کو
ہماری ساری حماقتوں کو
ہماری ساری خباثتوں کو
وہ جانتا ہے وہ دیکھتا ہے
مگر وہ چپ ہے اگر وہ چپ ہے
تو میری مانو وہ کہہ رہا ہے
کہ چُپ ہی رہنا_!!
آج اہل بہکڑال اور ڈھوک بنی کے تمام لوگوں کا فردا ً فرداً فرداً شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس فلاحی اور اجتماعی کام میں اپنی حیثیت سے بھی بڑھ کر کام کیا۔یہ فلاحی کام زیر زمین قابل استعمال پانی کے ذخائر کو انشاللہ بڑھائے گا اور اہل ھکڑال کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا ہے کہ دیگر پنجاب کے علاقوں میں موجود بوھڑ اورتالاب جو شاملاتی جگہ پر ہیں کو لوگوں نے یا تو قبضہ کر لیا یا فروخت کر دیا یا تعمیرات کر لی۔مگر الحمدللہ ہم سب نے مل کر اپنے بزرگوں کی نشانیوں کو اپنے سینے سے لگاتے ہوئے اپنی مدد آپ کے تحت اپنی آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کر لیا۔آئندہ انشاللہ شجر کاری مہم کی تیاری کی جائے گی اور باہمی خلوص اور مشاورت سے آئندہ بھی دیگر فلاحی کام کیے جائیں گے۔ ہمارے بزرگوں کی ان 2 نشانیوں بن اور بوہڑ نے ان 20 دنوں میں جہاں ہم سب کو اس بناوٹی دور میں اخلاص‘محبت،بھائی چارہ،اخوت اور رواداری کا وہ سبق دیا ہے جو ہم لوگ تقریبا بھلا بیٹھے ہیں وہیں میرے اندر روشنیوں کا دیا جلا دیا اور ایک عرصے سے اپنے اندر مختلف کشمکش،کھچاؤ،انجانے خوف،مایوسی اور مخمصے سے بھی چھٹکارا دینے میں مدد کی۔
اپنے گاوں کے لیے اپنے احساسات اور جذبات کو پہلی مرتبہ خاکسار نے صفحہ پر لانے کی ایک ادنی سی کوشش کی ہے۔اپنی رائے سے ضرور آگاہ کیجیے گا۔،(نوٹ: یہ تحریر میں نے خالہ کی اجازت سے ہی لکھی ہے۔اگر کسی بھی علاقہ کے لوگ اپنے علاقہ میں ایسے پتھر کا کام کروانے کے خواہشمند ہوں تو وہ ٹھیکدار اسرار پٹھان 03015483576 سے خود رابطہ کر سکتے ہیں تاکہ صوبہ خیبر سے آئے اس نیک نیت اور صاف گو محنت کش کے بچوں کی روزی روٹی بھی چلتی رہے۔)
546