گوجرخان پولیس کا شہری پر ظالمانہ تشدد 265

گوجرخان پولیس کا شہری پر ظالمانہ تشدد

زن‘ زر اور زمین کو ازل سے فتنہ وفساد کی جڑ تصور کیا جاتا ہے اور ابد تک یونہی سمجھاجاتا رہے گا کیونکہ ان کا تعلق انسان کے جذبات واحساسات اور ضمیر سے بہت گہرا ہوتا ہے۔لیکن ان تنیوں میں سب سے زیادہ اہمیت زر کو حاصل رہی ہے۔جس کے لیے نہ جانے کس وقت جذبات میں طغیانی آجائے۔نہ جانے کب؟؟کب زر کے لیے انسان انسانیت چھوڑ کر درندہ بن جائے نہ جانے کب۔مگر قدرت ہمیشہ اپنا کام مخصوص رفتار سے جاری رکھتی ہے۔اور لڑکھڑانے والے قدموں کو درست سمت میں چلانے کے لیے ایساعبرت ناک سبق ترتیب دیتی ہے کہ ساری دلفریب خوش گمانیاں ایک بھیانک فریب میں ڈھال کر جرم کو دنیا کے سامنے لے آتی ہے ہمارے معاشرے میں اقتدار اور اختیار دو ایسی چیزیں ہیں جو زن زر اور زمین سے زیادہ پرفتن اور خطرناک ہیں۔اقتدار کی کرسی پر بیٹھا کوئی شخص ہو یا آئین پاکستان کے تحت ملنے والے اختیارات کا حامل کوئی سرکاری ملازم دونوں کی سوچ جابرانہ‘ظالمانہ‘سفاکانہ اور بے رحمانہ ہی ہوتی ہے چونکہ ہمارے نظام کی خامیاں اور طاقت وروں کی پشت پناہی اختیار اور اقتدار کے حامل افراد کی خرمستوں کی گوشمالی کرنے میں رکاوٹ ہیں اس لیے یہاں اقتدار کی مسند پر بیٹھا سیاست دان ہو یا عہدے کے مطابق اختیار رکھنے والا ریاست و عوام کا ملازم دونوں آئین اور قانون کو پاؤں کی جوتی تصور کرتے ہیں۔ اختیارات کا سب سے زیادہ غلط استعمال محکمہ پولیس میں ہوتا ہے جہاں ”جو پیا من چاہے “کے تحت قانون کی من مرضی تشریح کرتے ہوئے لوگوں کو بغیر وارنٹ اٹھانا‘نجی ٹارچر سیلوں میں رکھنا اور بہیمانہ تشدد ایک معمول کی کاروائی تصور کی جاتی ہے کہیں کوئی کیس رپورٹ ہو تو بالا افسران عملے کو یا مخصوص فرد کے معطلی آرڈر جاری کر کے واقعہ کو مٹی پاؤ والا معاملہ بنا دیتے ہیں۔گزشتہ دنوں گوجرخان تھانے کے زیر اہتمام جبر میں قائم پولیس چوکی کے عملے کی جانب سے حبیب چوک میں لگائے ناکے پر شاید دن ڈھلے موہڑہ بھٹیاں کے رہائشی زبیر نامی شخص کو تلاشی کی غرض سے روکا گیا جس سے مبینہ طور پر ریوالور برآمد ہوا گرفتارشخص کے مطابق ریوالور کا لائسنس موجود تھا۔تاہم ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ برآمد ہونے والے ریوالور کانمبر لائسنس کے نمبر سے میچ کرنے کے لیے جعل سازی کی گئی تھی۔یعنی ریوالور پر نمبر مٹا کر لائسنس والا نمبر ڈالا گیا تھا۔پولیس کی جانب سے مبینہ ملزم کو گرفتار کر کے جبر چوکی پر لایا گیا۔حسب معمول علاقے کے چوہدری‘معززین‘سیاسی افراد کے فون آنا شروع ہوئے اور روایتی طریقہ کے مطابق انچارچ عقیل راٹھور نے اپنے طریقے سے گفتگو چلائی۔سوشل میڈیا کے مطابق انچارج چوکی عقیل راٹھور نے ملزم کی جان بخشی کے لیے ایک لاکھ روپے کی ڈیمانڈ کی کوشش کے باوجود معاملات طے نہ ہوئے قانونی طور پر ملزم کو فوری طور گوجر خان پولیس اسٹیشن پہنچایا جانا چاہیے تھا لیکن من مرضی اور اختیار اور طاقت کا بے استعمال کرنے والے قانون کو کبھی فالو نہیں کرتے۔کہا جاتا ہے کہ گرفتار شخص کے عزیز رشتے داروں کی جانب سے رقم کی عدم ادائیگی کے بعد پولیس نے اپنا روایتی کام شروع کیا اور ملزم پر تشددکا نسخہ آزمایا۔جس سے ملزم شدید زخمی ہوگیا اطلاع ملنے پر ایس
ایچ او گوجر خان جبر چوکی پہنچے اور معاملے کورفع دفع کرنے کی غرض سے گرفتار ملزم کو اس کے عزیزوں کے حوالے کردیا گیا اب ظاہر ہے کہ رشتہ داروں کی جانب سے اس زخمی کو طبی امداد کی فراہمی کی غرض سے ڈاکٹر کے پاس لے جانا ضروری تھا جہاں ایکسرے کروانے پر معلوم ہوا کہ تشدد سے اس کی ٹانگ کی ہڈی میں فریکچر ہوچکا۔سوشل میڈیا پر نیوز وائرل ہونے پر ردعمل سے بچنے کا پرانا نسخہ آزما تے ہوئے چوکی کا عملہ معطل کر دیا گیا۔کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ گرفتار شخص مبینہ طور پر منشیات فروشی کے علاوہ کرمنل ریکارڈ کا حامل بھی رہا ہے۔اگر ان حلقوں کی بات کو درست تسلیم کر بھی لیا جائے تو کیا قانون اس پر اس طرح سے تشدد کی اجازت دیتاہے؟؟؟ اگر چوکی انچارج کے مطابق برآمد ہونے والے ریوالور کا نمبر جعلی بھی تھا تب بھی اس پر ناجائز اسلحہ کا مقدمہ درج کیا جانا چاہیے تھا نہ کہ تشدد سے اس کی ٹانگ توڑ دی جاتی کسی بھی مہذب معاشرے میں اس قسم کی حیوانگی نہیں ہوتی۔کسی شہری پر تشدد اور اس قدر تشدد کہ اس کی ہڈیاں تک ٹوٹ جائیں کسی طور قابل معافی نہیں ہونا چاہیے۔کیا تشدد میں ملوث اہلکاروں کی سزا صرف معطلی ہے جس کے دوران کام کے بغیر تنخواہ بھی ملتی رہے۔معطلی کوئی سزا نہیں ذمہ دار افراد کو نوکری سے برطرف اور تشدد پر مقدمہ کااندراج ہونا چاہیے۔ایسے وحشی اہلکار کسی معافی یارعایت کے مستحق نہیں ہونا چاہیے۔جنگل کے قانون میں بھی کچھ ضابطے اور قانون ہوتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس واقعہ میں ملوث افراد پر مقدمہ قائم کر کے انہیں ٹرائل کیا جائے تاکہ محکمہ پولیس سے اس قسم کے واقعات کا خاتمہ ہوسکے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں