انسان تو انسان وحشت کے سوداگروں نے اب جانوروں کی بھی ’’فرقہ بندی‘‘ شروع کر دی ہے۔زیادہ دور جانے کے بجائے اگر صرف 80کی دھائی کو دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں بھی انسانوں کو پکڑ پکڑ کر ان پر’’مجاہدانہ‘‘ ٹھپے لگائے جاتے تھے۔اس وقت کے ’’جہاد‘‘ کو بھی امریکی امداد و حمایت حاصل تھی اور آج کے النصرہ اور داعشی جہاد کے پیچھے بھی امریکہ و اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کی پلاننگ واضح ہے القاعدہ کی تشکیل سے لے کر اس کے ’’بچے جننے تک‘‘ کے عمل کی جس طرح عالمی سامراجی طاقتوں نے نگہبانی کی یہ سب بھی اپنی جگہ ایک پوری تاریخ ہے۔ہمارے معاشرے میں کس طرح انتہا پسندی اور فرقہ واریت نے عروج پایا اس پر بھی تاریخ کے اوراق گواہ ہیں۔کالم کاری کے لیے کئی ایک موضوعات آئے روز دستک دیتے ہیں۔مقامی و ملکی اور بین الاقوامی سطح کے کئی ایک جھمیلے اخبار نویس کی راہ تک رہے ہوتے ہیں۔بعض موضوعات مگر زیادہ توجہ کے طالب ہوتے ہیں۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارا میڈیا بین الاقوامی معاملات کو پاکستانی قارئین و ناظیرین تک نہیں پہنچاتا ۔اخبارات اس حوالے سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔یمن کی صورتحال کو ہی دیکھ لیں۔ اندر کے صٖفحات پہ دو کالمی خبریں۔امامِ کعبہ کی آمد پہ البتہ پہلے صفحے پہ تین تین کالم خبریں بھی چھپتی رہیں۔وہ بھی مگر امام کعبہ کی خا نہ ء خدا سے نسبت کے طفیل۔ان کے دورے پہ غیر جانبدار تجزیہ کاروں نے اگرچہ انگشت نمائی بھی کی ہے۔ہم مگر اس موضوع کو آج نہیں چھیڑیں گے۔حیرت انسان کا قیمتی سرمایہ ہے بالکل ذہانت کی طرح۔میں اپنے اس سرمائے کی بہت قدر کرتا ہوں۔حیرت و استعجاب انسانی ذہن کو مسلسل سوچنے پہ لگائے رکھتا ہے۔میری آج کی حیرت کا سبب گریسی نامی بھیڑ کی داعش میں شمولیت ہے۔میں یمن کی صورتحال اور مشروط جنگ بندی کے حوالے سے کچھ لکھنا چاہ رہا تھا کہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام کی ایک خبر نے میری ساری توجہ کھنچ لی۔خبر کے مطابق’نیوزی لینڈ میں جانوروں کی فلاحی تنظیموں کے مطابق کسان عام طور پر اپنی بھیڑوں کی شناخت کے لیے ان پر کوئی نشانی لگاتے ہیں لیکن کسی بھیڑ کو اغوا کرنے کے بعد اس پر شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کا رنگ کرنا ایک انوکھا واقعہ ہے۔گریسی نامی ایک بھیڑ بدھ کی رات ڈیون پورٹ کے گردو نواح سے غائب ہو کر آوارہ گردی کرتی ہوئی آک لینڈ کی سٹرکوں پر پہنچ گئی۔گریسی کو کیٹ شین اور ان کے شوہر نے آک لینڈ کی سٹرکوں پر گھومتے دیکھا جو ان کے لیے ایک حیران کن بات تھی۔ گریسی کے ایک جانب 420 لکھا ہوا تھا جو چرس کا کوڈ ہے، جبکہ اس کی دوسری جانب کالے رنگ سے شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کا مخفف ISIS لکھا ہوا تھانیوزی لینڈ میں جانوروں کی فلاح کی تنظیم سیو اینیملز فرام ایکسپلائٹیشن کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہانس کریک کا کہنا ہے ایسی شرارت بے وقوفی ہوتی ہے اور اس سے جانور پر غیر ضروری ذہنی دبا ؤآ سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ اگرچہ یہ جانوروں پر بے رحمی کا بڑا مظاہرہ نہیں ہے لیکن پھر بھی بیوقوفانہ کام ہے اور جانوروں کے لیے سخت تکلیف دہ ہے۔ہانس کریک کے مطابق بھیڑیں قدرتی طور پر نروس جانور ہوتی ہیں اور اس حرکت سے ان پر غیر ضروری دبا ؤآ سکتا ہے۔گمشدہ اور پالتو جانوروں کو ڈھونڈنے کا کام کرنے والے نارتھ شور پیٹز نامی فیس بک گروپ کا کہنا ہے کہ گریسی کو قریبی پناہ گاہ پہنچا دیا گیا جس کے بعد اس کے مالکان اسے آ کر واپس لے گئے۔‘‘ خبر میں مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ گریسی بھیڑ کے مالکان بھیڑ پر سے لکھا ہواISIS مٹا دیں گے یا نہیں۔کیونکہ جانوروں کی تنظیم والے یہ کہہ رہے ہیں کہ ایسی حرکات سے جانوروں پر غیر ضروری دباؤ آجاتا ہے۔یعنی شدت پسندی اور دہشت گردی ایک ایسی وبا اور بیماری ہے جس سے جانور بھی پناہ مانگتے ہیں۔پس یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گرد اور شدت پسند جانوروں سے بھی بد تر ہیں کہ جو اپنے جیسے انسانوں کو ذبح کرنے میں دباؤ کے بجائے’’لذت‘‘ محسوس کرتے ہیں۔اس خبر کو ایک اور طرح دیکھا جائے تو یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ داعش نیوزی لینڈ تک اپنے حمایتی رکھتی ہے جو ’’جہاد النکاح‘‘ میں شمولیت کو بے قرار ہیں۔سوال مگر یہ ہے کہ نیوزی لینڈ کی حکومت نے اس سارے معاملے کی تحقیقات کرنے کے بجائے گریسی کو مالکان کے حوالے کیوں کر دیا؟کیا اس سے ISIS کے نیوزی لینڈ میں چھپے سپورٹروں کو شہہ نہیں ملے گی؟اور کل کو وہ انسانوں کو بھی اغوا کر کے ان پرISIS کی مہریں لگاکر ر چھپ جایا کریں گے،کیونکہ دنیا کی ساری دہشت گرد تنظیموں کا یک مشترکہ کاروبار اغوا بھی ہے۔اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ISIS کے حمایتی ایک’’ چرسی‘‘ بھیڑ کو ISISکی نمائندہ کیوں بنا رہے ہیں؟کیا ISISوالے یہ پیغام دیانا چاہتے ہیں کہ وہ عراق و شام کی حدوں سے نکل کر آسٹریلیا و نیوزی لینڈ کے دور دراز جزیروں تک اپنا نیٹ ورک قائم کر چکے ہیں؟ بادی النظر میں یہی لگتا ہے۔کیونکہ یمن سعودی عرب جنگ میں ISISکی کاررئیوں کو میڈیا میں وہ کوریج نہیں ملی جس کی انھیں توقع تھی تو انھوں نے نیا طریقہ دریافت کیا۔بعید نہیں کہ کل کلاں کسی صحرائی ملک کے اونٹوں پر بھی ISIS کا سپرے کر دیا جائے۔دنیا ایک ہولناک جنگ کے دھاندے پر ہے۔اس میں داعش،القاعدہ،النصرہ،افغانی و پاکستانی طالبان،اردن و مصر کی شدت پسند تنظیمیں اپنی ایک نام نہاد خلافت پر مبنی ریاست کا خواب دیکھ رہی ہیں جبکہ امریکہ و دیگر عالمی طاقتیں ان قوتوں کو مہمیز بھی کر رہی ہیں اور ان کی آڑ میں مشرقِ وسطیٰ کو بکھیرنے کا خواب بھی شرمندہ ء تعبیر کرنا چاہتی ہیں۔ہم بے شک فیصلہ کن مرحلے میں ہیں۔مشرقِ وسطیٰ سے اٹھنے والے شعلے آگ میں بدلتے نظرآرہے ہیں۔ اپنے خاص جغرافیائی لحاظ اور معاشرتی رویے کی بنا پرمشرقِ وسطیٰ میں جاری ’’جہادی ‘‘ و غیر جہادی کھیل سے پاکستان البتہ لا تعلق نہیں رہ سکتا کیونکہ اس کے اثرات ہمارے معاشرے پر ضرور پڑ رہے ہیں۔کیا ہمارے جوان شام میں القاعدہ و النصرہ کی مدد کو نہیں پہنچے؟کیا ہم یمن کی آگ میں کودنے کو بے قرار نہیں؟کیا سعودی عرب اتحاد میں شمولیت کے لیے ہمارے ہاں جمعۃ المبارک کو ریلیاں اور عام دنوں میں کانفرنسز نہیں ہو رہی ہیں؟یہ سب وہ حقائق ہیں جن سے کسی بھی طرح آنکھیں نہیں پھیری جا سکتیں۔ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ ہم نے انتہا پسندی کو جہادی لبادے میں در آمد کیا ہے۔نیوزی لینڈ جیسے ملک ،جسے دنیا کے امن پسند ملکوں میں سے جانا جاتا ہے،وہاں شدت پسندوں کی جانب سے بھیڑ کو ’’اغوا‘‘ کر کے اس پر ISISکا سپرے کرنا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ اس کے پیچھے پوری دنیا کے امن پسندوں کے لیے ایک پیغام بھی ہے۔نیوزی لینڈ کی حکومت کو ہر حال میں’’اغوا کاروں اور ان کے مقاصد‘‘ تک پہنچنا چاہیے اگر ایسا نہ ہوا تو آئندہ دنوں میں آک لینڈ سے تاجر اور سیاستدان بھی اغوا ہوا کریں گے،اور نیوزی لینڈ کی حکومت ’’گریسی‘‘ کے ذریعے اغواکاروں کو بھتہ بھی دیا کرے گی۔{jcomments on}
114