98

کوٹلی ستیاں تعلیمی اداروں میں سہولیات کا فقدان

طاہر ستی‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
تعلیم معاشرے کا ایک اہم پہلو ہے کسی بھی علاقے کی ترقی کیلے تعلیم بہت ضروری ہے جس علاقے میں تعلیمی ادارے اچھے ہوتے ہیں وہ علاقے جلد ترقی کی منازل طے کرجاتے ہیں حلقہ پی پی 06 کی تحصیل کوٹلی ستیاں پہلے ہی پسماندگی کا شکار ہے اسکے تعلیمی اداروں میں سہولیات کا حال تباہ کن ہے کوٹلی ستیاں میں معیاری تعلیم اور تعلیمی ادارے نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر افراد نے شہروں کی طرف رخ کرلیا کوٹلی ستیاں کے زیادہ تر ایسے تعلیمی ادارے ہیں جن میں ابھی کلاسسز کیمطابق کلاس رومز تک دستیاب نہیں اور بعض ہائرسیکنڈری سکولز میں صرف دو چار ٹیچر کام چلا رہے ہیں گزشتہ 15 دن پہلے گورنمنٹ گرلز ھائی سکول وگہل کی طالبات سٹاف کی کمی کے باعث ای ڈی آفس لیاقت باغ میں احتجاج کیلئے پہنچ گئی اور حکام بالا کو جنجھوڑا کہ ہمارا مستقبل ضائع ہورہا ہے جو کسی صورت برداشت نہیں حکام بالا نے جب آنکھیں کھول کر دیکھا تو سٹاف نہ ہونے کے برابر تھا اور اسی وقت تین ٹیچرز کو بھیجا قارئین کرام کیا ہرمسئلہ احتجاج سے ہی حل کروائیں گے تو پھر ووٹ کس لیے دیا تھا کیا احکام بالا کو پہلے علم نہیں تھا کہ سکول ہذا میں سٹاف کی کمی ہے یاد رہے کہ سکول ہذا میں پچھلے سال سٹاف موجود تھا جو کہ اپنے من پسند جگہ پر تبادلہ کرانے میں کامیاب ہوگیا انتظامیہ کی عقل اسوقت سورہی تھی جب گرلز ہائی سکول وگہل سے ٹیچرز اپنے تبادلے من پسند جگہ پر کروا رہی تھی ان کی جگہ پر کوئی نئی ٹیچرز کو نہ بھرتی کیا گیا پھر طالبات نے تقریبا آٹھ ماہ تک انتظار کیا تو مجبورا احتجاج کیلئے ای ڈی او آفس پہنچ گئی صرف تین گھنٹے کے احتجاج کے بعد متعلقہ حکام کی آنکھیں کھلی اور سٹاف کی تعیناتی کا حکم دیا کوٹلی ستیاں میں اور بھی ایسے تعلیمی ادارے ہیں جن میں نہ سٹاف نہ کمرے نہ کھیل کا میدان اور نہ کوئی چار دیواری ہے سیکیورٹی کا کوئی معقول بندوبست نہیں کیا ایسے حالات میں بچے تعلیم حاصل کر لیں گے سخت گرمی کے موسم میں بھی دھوپ میں بیٹھنے کو جگہ ملیں پانی کے حصول کیلئے کئی میل پیدل چل کر خود جا کر لانا پڑے تمام مضمون ریگولر نہ پڑھائے جائیں کیا ایسے حالات میں بچے تعلیم حاصل کریں گے مگر ہاں وہ مجبورا” اونا پونا کرکے میٹرک کرتے ہیں پھر وہ بچے مزید پڑھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں چونکہ ابتدائی تعلیم اگر اچھی نہ ہو تو جیسے ہی وہ آگے بڑھتے ہیں انکی مشکلات میں مزید اضافہ ہوجاتا کالجز کے استاتذہ کو بھی ایسے بچوں پر سخت محنت درکار ہوتی ہے تو یہاں کہانی بیان کرنے کا مقصد یہ کہ ہمارے ایم پی ایز میجر لطاسب ستی سمابیہ طاہر ستی اور عابدہ پروین راجہ کو فی الفور تعلیمی اداروں کا بخود جائزہ لیں ان کو درپیش مسائل حل کروائیں سٹاف کی کمی کو پورا کروائیں طلباء و طالبات کی تعداد کے مطابق سکولز کے کلاس رومز سیٹ کروائیں کیونکہ یہی بچے کل کوٹلی ستیاں کی راہنمائی کریں گے اچھی معیاری تعلیم اگر میسر ھوگی تو کوٹلی ستیاں سے پنڈی اسلام آباد میں جانیوالے افراد ایک بار پھر ٹھنڈے اور پر فضا مقام کی طرف رخ کریں گے جی ہاں بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت انکو کل کا ہیرو بنا دیتی ہے کوٹلی ستیاں کا علاقہ بظاہر ایک پہاڑی اور دشوار گزار علاقہ ہے ننھے طلباء و طالبات کو سکولز میں مشکلات کیساتھ ساتھ سفری مشکلات کا بھی سامنا ہے صبع سویرے گاڑیوں کی چھتوں پر خطرناک انداز میں سفر کرتے ہیں بعض اوقات کئی کئی میل پیدل سفر طے کرکے سکول پہنچتے ہیں.سابق وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کے اعلان کے باوجود بسیں ڈگری کالج کوٹلی ستیاں کو نہ دی سکی حتی کہ گزشتہ دس سالوں میں کوٹلی ستیاں کے سبھی تعلیمی ادارے تباہ حال ہوچکے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید بگڑتی جارہی ہے. بچوں کیلئے معیاری تعلیم ایک خواب بن کر رہ گئی نومنتخب ایم پی اے میجر لطاسب ستی اور سمابیہ طاہر ستی کو بڑے پیمانے پر چیلنجیز درپیش ہیں جن سے نمٹنا بہت ضروری ہے ہر گزرتے دن کیساتھ مسائل میں خوفناک حد تک اضافہ ہورہا ہے جنھیں کم کرنے کیلئے بروقت ایکشن کی ضرورت ہے میجر لطاسب ستی اور محترمہ سمابیہ طاہر ستی سے اپیل کرتے ہیں کہ جس طرح یونین کونسلز کی بحالی کیلئے دن رات کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں اسی طرح تعلیم کے شعبے میں بھی دلچسپی لیتے ہوئے ہمارے تعلیمی اداروں کو سہولیات کیساتھ ساتھ سٹاف کی کمی کو بھی پورا کریں بلکہ متعلقہ حکام کیساتھ مختلف سکولز کا وزٹ بھی کریں ان سے درپیش مسائل معلوم کریں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں