راولپنڈی کی تحصیل کلرسیداں میں ایک ہفتہ میں دو بڑی اخلاق سوز وارداتوں میں نتیجہ میں ایک شخص نے دلبرداشتہ ہوکر زندگی کاخاتمہ کرلیا جبکہ سائلین انصاف کے حصول کیلئے پولیس کے ہاتھوں فٹ بال بن کرر ہ گئے ہیں انسان کو تمام مخلوق سے افضل سمجھا جاتا ہے لیکن موجودہ دور میں انسان اپنے اعمال کی وجہ سے حیوانیات سے بھی نچلے گڑھا میں جا گراہے ۔ انسانیت کا وصف، اخلاقیات ، اور اسلام کی تعلیمات بھلا کر اپنی حرص و حواس کے ہاتھوں کٹ پُتلی بن کر انسانیت کا سر شرم سے جُکا رہا ہے اور شاید عذابِ الہی کو آواز دے رہا ہے۔گزشتہ دنوں تھانہ کلرسیداں میں انسانیت کا سر جُھکانے کے لئے دو ایسے واقعات منظرِ عام پر آئے ۔ جن میں پہلے واقعہ میں چار افراد نے بمعہ گنگال کے 22 سالہ رہائشی عالمگیر کو اپنی حواص کا نشانہ بنایااور ساتھ وڈیو بھی بنا لی جو اس بے عزتی کو برداشت نہ کر سکا اور کنواں میں چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا تو خاتمہ کر لیا لیکن اپنے والدین کو تا حیات دردو غم کی تصویر بنا گیا اور انصاف کے حصول اور ملزموں کی گرفتاری اور سزا کے لئے دربدر کی ٹھوکریں ان کا نصیب بنا گیاابھی اس واقعہ کو کچھ ہی دن گزرے تھے کہ دو اپریل کو چوآخالصہ کے نواحی گاؤں پہر حالی کے راحیل کے ساتھ پیش آنے والا ایک اور واقعہ سامنے آیا جس میں اس کے ساتھ اس کے اپنے سکول فیلو اور چند اوباش نوجوانوں نے نہ صرف بدفعلی کی بلکہ وڈیو بھی بنا لی بظاہر دو مختلف نظر آنے والے واقعات میں بہت کچھ مشترک ہے جیسے کہ ملزمان کی عمریں ،دونوں واقعات میں زیادہ تر ملزمان کی عمریں اٹھارہ سال کے لگ بھگ ہیں اور دوسری بات کے دونوں واقعات میں موبائیل فونز کے ذریعے سے وڈیو بنا ئی گئی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملزمان اپنے کیے پر پشیمان ہونے کی بجائے مستقبل میں اس عمل کو بلیک میل کر کہ جاری رکھنا چاہتے تھے
چوآخالصہ واقعہ میں نامزد ہونے والے ملزمان گورنمنٹ ہائیر سکینڈری سکول چوآخالصہ کے نویں اور دسویں کے طالبِ علم ہیں ،جو ایک معتبر اور قدیم ادارہ ہے اور علاقے کے لئے تعلیمی لحاظ سے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اب موجودہ وقت میں جب حکومت معیارِ تعلیم کو بہتر بنانے میں کوششیں کر رہی ہے تو ایسے وقت میں اس سکول کے طالبِ علموں کا ایسا گنونا عمل یقنناً والدین کی اپنے بچوں کی کی جانے والی تربیت کے ساتھ ساتھ اس سکول کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے، ایسا پہلی با ر بار نہیں ہوا بلکہ کچھ عرصہ سے اس سکول کے گردو نواح میں ایسے واقعات بہتات کے ساتھ رونما ہو رہے جن میں اکثر واقعات تو والدین اپنی عزت بچانے کی خاطر منظرِ عام پر ہی نہیں آنے دیتے اور اگر کوئی منظرِ عام پر آبھی جائے توان واقعات میں ملوث درندہ صفت کو بچا نے کے لئے ایسے ایسے شرفاء سامنے آجاتے ہیں کہ معاملہ یا تو رازی نامے کی صورت میں ختم ہو جاتا ہے یا پھر والدین کو دھمکیاں دے دے کر ان کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ معاملہ ختم کر دیں اگرچہ اساتذہ چھٹی کے بعد بچوں کی نگرانی نہیں کر سکتے کہ وہ کدھر جا رہے یا کس سے مل رہے ہیں لیکن وہ ان کی تربیت اور رہنمائی اس انداز میں ضرور کرسکتے ہیں جس سے ان کو اچھے اور بُرے کی پہچان ہو سکے۔لیکن چوآخالصہ سکول کے یہ حالات ہیں کہ اکثر سکول کے گرد ونواح میں درندہ صفت ٹولیوں کی شکل میں بیٹھے رہتے ہیں جو بہت ہی منظم انداز میں معصوم بچوں پر جال ڈالتے ہیں اور انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ سکول کے ارد گرد مافیا موجود ہے جوخاص طور پر معصوم کلیوں کو کُچلنے اور انہیں غلط رستے پر لگانے کے در پر تو غلط نہ ہو گا ۔ اب اس معاملہ سے نبردآزما ہونے کے لئے سکول انتظامیہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اور ایسا لائحہ عمل مرتب کرنا ہو گا تا کہ مزید بچوں کو اس لت سے محفوظ رکھا جا سکے سب سے پہلے تو فضول اور اکثر اوقات سکول کے ارد گرد نظر آنے والے منچلوں کو باقدہ وارننگ دی جائے اس کے بعد پولیس کی مدد بھی لی جائے،اس کے علاوہ بچوں کو آدھی چھٹی دینے سے پہلے اس کے گھر سے اجازت لی جائے اور مہینئے میں کم از کم ایک بار والدین کو سکول بلاکر بچے کی مکمل رپورٹ دی جائے سکول کی ذمہ داری سے پہلے والدین کی ذمہ داری کی بھی بہت اہمیت ہے ، بدکاری کے دونوں واقعات میں موبائیل فون کا استعمال کیا گیا ہے جو قطعی طور پر بھی اس عمر کے بچوں کی ضرورت نہیں ہے لیکن والدین نے جدئد ترین ٹیکنالوجی سے لیس موبائیل فونز بچوں کے ہاتھوں میں تھما کر برائی کے طرف پہلا قدم اٹھایا ہے ، اس کے علاوہ آدھی آدھی رات تک بچے سوشل میڈیا پر رنگ ریلیاں مناتے ہیں اوروالدین خوابِ خرگوش کے مزے لیتے ہیں انہوں نے کبھی یہ دیکھنے کی زحمت نہیں کی کہ آخر بچے کیا کر رہے اور کن لوگو سے راوبط قائم کیے بیٹھے ہیں موجودہ دور میں ہم اپنے سماجی رویوں کی وجہ سے گہرائی کی جانب گامزن ہیں اقبال کے شاہین ہواوں میں اڑنے کی بجائے دلدلوں میں دھنستے چلے جا رہے ۔اس دور میں معاشرے کے ہر فرد کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے حصہ کا دیا جلائے اور باطل اور درندے صفت کی حوصلہ شکنی کرے تا آنے والی نسلیں ایک پر امن معاشرے میں سانس لے سکیں اور ہم ’’قومِ لوط‘‘ کی طرح کوئی عذاب ہمارا مقدر نہ بنے۔{jcomments on}
86