چوھدری محمد اشفاق‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
راولپنڈی کے دیگر علاقوں کی نسبت کلرسیداں میں جرائم کی شرح کم ہونے کی وجہ سے ضلع راولپنڈی کی دیگر تحصیلوں کی نسبت کلرسیداں کو پرامن خیال کیا جا تا تھا یہاں پر قتل و غارت ڈکیتیوں اور دیگر خطرناک وارداتوں میں خاطر خواہ کمی رہی ہے خاندانی رنجش اور زمینی تنازعات یہاں پر ہوتے رہتے ہیں جو بعض دفعہ ٰخطرناک صورتحال اختیار کر جاتے ہیں لیکن اندھی وارداتوں کی مثالیں یہاں پر بہت کم ہی ملتی ہیں گزشتہ چند ماہ کے دوران کلرسیداں تھانہ کی حدود میں خطرناک وارداتوں کی شرح میں تھوڑا اضافہ ہو گیا ہے اور ان وارداتوں میں زیادہ تر پولیس چوکی چوکپنڈوڑی کی حدود میں ہوئی ہیں جس وجہ سے عوام علاقہ کی انگلیاں اب پولیس کی کارکردگی پر اٹھ رہی ہیں دو ہفتے قبل چوہا خالصہ کے ایک تاجر کو گولیاں ماری گئی ہیں کلرسیداں سے دوبیرن روڈ پر واقع ایک حماد بلاک فیکٹری کے مالک کو بہت ہی مہارت کے ساتھ لوٹ لیا گیا ہے دو ہی ہفتے قبل چوکپنڈوڑی کے مقام پر چار عدد ڈاکووں نے تھوہا خالصہ کے ایک رہائشی سے اڑھائی لاکھ روپے لوٹ لیئے ہیں لیکن پولیس چوکی چوکپندوڑی کے عملہ نے متاثرہ شخص کو نہ جانے کس طرح ہراساں کیا کہ کہیں کوئی بھی مقدمہ درج نہ ہو سکا ہے جس کیس کا مقدمہ ہی درج نہ ہو سکا ہے اس کے ملزمان کون پکڑ سکے گا شاہ باغ میں دو ڈاکٹر بھائیوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا ہے جس سے دونوں بھائیوں کی ٹانگیں بری طرح ضائع ہو گئی ہیں یہ واقع ایک کھلی دہشت گردی تھا لیکن افسوس پولیس نے مقدمہ لڑائی جھگڑے کا درج کیا ہے اور اس میں دہشت گردی کی کوئی بھی دفعات شامل نہیں کی گئی ہیں اور اس کیس کی پراگریس ابھی تک صفر ہے اور پولیس اس کے ملزمان پکڑنے میں بری طرح ناکام دکھائی دے رہی ہے چند یوم ہی قبل چوکپنڈوڑی کے مقام پر ایک ریت بجری کے ٹھئیے کے منشی اور چھپر کے رہائشی خالد محمود سے کار سواروں نے پینسٹھ ہزار روپے لوٹ لیئے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ متاثرہ شخص نے پولیس کے چکروں میں پڑھنے کے بجائے نقسان برداشت کر لینے کو ہی ترجیح دی ہے ایسی صورتھال بھی پولیس کی کارکردگی پر بہت برا سوالیہ نشان ہے کہ ایک شخص لٹ جانے کے باوجود تھانہ یا چوکی پر کیوں نہیں گیا ہے صرف اس لیئے کہ وہ مزید خراب نہیں ہونا چاہتا تھا چوکپندوڑی شہر سے کئی موٹر سائیکل غائب ہو چکے ہیں جن کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں لگایا جا سکا ہے بدھ کے روز شاہ باغ میں واقع ایک ڈاک خانہ میں ڈکیتی کی گئی ہے جس کے ملزمان پولیس کی وردیوں میں ملبوس تھے پوسٹ ماسٹر سے نے واردات کی باقاعدہ تصدیق کی تھی لیکن نہ جانے کچھ ہی دیر بعد پوسٹ ماسٹر کو کیسے ہوش آ گیا کہ واردات تو وہ تھی جو ہو گئی ہے اب وہ مزید خواری کیسے برداشت کرے گا اس نے بھی واقع سے چشم پوشی ہی اختیار کرنے میں اپنی بہتری سمجھی ہے تقریبا ایک ماہ قبل ہی شاہ باغ میں ہی واقع ایک جنرل سٹور کے مالک کو بھی لوٹ لیا گیا تھا ملزمان کے ساتھ ساتھ وہ کیس بھی کہیں غائب ہو چکا ہے پولیس چوکی چوکپنڈوڑی کے انچارج صاحب کی اس حوالے سے کیا کارکردگی ہے انہوں نے ابھی تک ان وارداتوں کے ملزمان کیوں گرفتار نہیں کیے کیا ان کا کام صرف چمک دمک کے ساتھ چوکی میں بیٹھنا ہی ہے اسمیں کوئی شبہ نہیں ہے کہ پولیس جائے واردات پر موجود تو نہیں ہوتی ہے اور نہ کوئی واردات پولیس سے پوچھ کر کی جاتی ہے واردات کرنے والے بھی اپنے کاموں میں بہت ماہر ہوتے ہیں اور نہ پولیس کے پاس کوئی ایسے آلات موجود ہیں جو واردات سے قبل پولیس کو آ گاہ کر دیں لیکن وارداتوں کے سراغ لگانا بھی تو پولیس کا ہی کام ہے عام آدمی تو یہ کام انجام نہیں دے سکتا ہے لیکن پولیس ان جرائم پیشہ افراد کو قابو کرنے میں تو اپنا پیشہ وارانہ کردار ادا تو کر سکتی ہیں چلو مان لیا کہ کچھ وارداتیں ایسی ہوتی ہیں جن کے ملزمان تک پہنچنا بہت جان جوکھوں کا کام ہوتا ہے لیکن کچھ تو ایسی ہونی چاہیں جن کے ملزمان کی گرفتاری عمل میں لا کر عوام علاقہ کو اپنی کارکدگی سے مطمئن کیا جا سکے کچھ وارداتیں کلرسیداں کی حدود میں ایسی بھی ہوئی ہیں جن کے ملزمان پولیس نے بہت جلد بھی پکڑے ہیں جس کی ھال ہی میں واضح مثال یہ ہے کہ دوبیرں قتل کیس کے ملزمان ہماری پولیس نے صرف ایک دو دنوں میں ہی گرفتار کر لیئے ہیں اور پولیس اس معاملے کی پوری طے تک پہنچ چکی ہے ایس ایچ او بشارت عباسی کے نام کے چرچے تو بہت سن رکھے ہیں کلرسیداں میں ان کی تعیناتی ایک چیلنج کی حثیت رکھتی ہے بہت سی وارداتیں ایسی ہیں جن کو ٹریس کرنا ان کیلیئے ایک بڑا امتحان ہو گا اس کے اتھ ساتھ بشارت عباسی کو پولیس چوکی چوکپنڈوڑی پر بھی خصوصی دھیان دینا ہو گا اور اس کی حدود میں ہونے والی وارداتوں کے حوالے سے چوکی انچارج سے باز پرس کرنا ہو گی کہ وہ کیا کر رہے ہیں
172