جن ہاتھوں میں قلم کتابیں ہونی چاہئیں ان میں اگر اسلحہ اور ڈنڈے دیکھنے کو ملیں تو اس میں ہمارے تعلیمی نظام اور معاشرے کی کارکرکردگی پر بے شمار سوالات جنم لیتے ہیں اور پھر اوپر سے ان کے سرپرست بھی ان سے بڑھ کی شر پسندی سوچ کے مالک ہوں تو پھر طالبعلم بھی اس طرح کے کاموں کو فخر سے کریں گے بلکل اسی طرح کا ایک واقعہ کلرسیداں میں پیش آیا ہے جہاں طالبعلموں نے تو حماقت کی ہی ہے ان کے بڑے بھی ان سے پیچھے نہ رہے ہیں انہوں نے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ ہم اپنے بچوں سے کم نہیں ہیں 9مارچ کو 3 بجے ریسکیو 1122 کلرسیداں کو کال موصول ہوئی کہ گجر خان روڈ پر دو گروپوں میں تصادم سے کافی افراد زخمی ہیں نا معلوم وجوہات کی بنا پر جھگڑا ہوا ہے ریسکیو 1122 کلرسیداں نے موقع پر پہنچ کر زخمیوں کو طبی امداد دی زخمیوں میں ارتضیٰ سکنہ مرزاکمبیلی عدنان حسن غوثیہ محلہ حامد علی سکنہ درکالی معموری مبین حمید تل خالصہ اسماعیل سکنہ درکالی معموری تمام زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد تحصیل ہیڈکوارٹر کلرسیداں منتقل کر دیا گیالڑائی جھگڑے کی یہ واردات کلرسیداں میں قائم کچھ نجی کالجزکے طالبعلموں کے درمیان ایک دوسرے کو آنکھیں دکھانے پر شروع ہوئی کلرسیداں شہر میں دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئیں اور خونی لڑائی شروع ہو گئی جس میں بڑے بھی کود پڑے مضروب جب ٹی ایچ کیو ہسپتال پہنچے تو ایک مخالف گروپ نے ٹی ایچ کیو ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ پر چڑھائی کر دی اس موقع پر پتھروں، لاٹھیوں اور آتشیں اسلحہ کا آزادانہ استعمال کیا گیا شدید پتھراؤاور فائرنگ سے ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹروں اوردیگر طبی عملہ نے بھاگ کر اپنی جانیں بچائیں ایک گھنٹے تک ٹی ایچ کیو ہسپتال میدان جنگ بنا رہا مسلسل پولیس کو کال کرنے اور 15پر کال کے باوجود پولیس تھانہ کلر سیداں نہ پہنچ سکی ایس پی صدر کا نوٹس بعد ازاں ایس ایچ او پولیس نفری کے ہمراہ ٹی ایچ کیو ہسپتال پہنچے جہاں سے لڑائی جھگڑے میں ملوث متعدد افراد کو گرفتار کر لیا گیا ۔ اس موقع پر فائرنگ سے ایمرجنسی میں زیر علاج ایک شخص نعمان سکنہ درکالی معموری زخمی ہوگیا جبکہ پتھراؤ سے ٹی ایچ کیو ہسپتال کلر سیداں کی ایمرجنسی وارڈ کو بری طرح تباہ وبرباد کر دیا اس موقع پر ڈیوٹی پر موجود ٹی ایچ کیو ہسپتال کے میڈیکل آفیسر ڈاکٹر ذیشان نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں شکایت کی کہ انہوں نے کلر سیداں پولیس کو مدد کیلئے مسلسل متعدد کالز کی لیکن کلر سیداں پولیس خاصی تاخیر سے پہنچی جس کی وجہ سے مضروب افراد اور ایمرجنسی وارڈ کو شدید نقصان پہنچا ادھر ایس پی صدر کے نوٹس لینے پر ایس ایچ او کلر سیداں پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ ٹی ایچ کیو ہسپتال پہنچ گئے جہاں پولیس نے لڑائی جھگڑے میں ملوث متعدد ملزمان کو گرفتار کر کے ان کے قبضہ سے اسلحہ اور لاٹھیاں اپنے قبضے میں لے لیں کلر سیداں پولیس مصروف تفتیش۔لڑائی جھگڑے کے بعد ہسپتال میں فائرنگ کی وجہ سے علاقے بھر میں خوف و ہراس پھیل گیا کلر سیداں ریسکیو 1122کے مطابق پانچ سے زیادہ شدید زخمی افراد کو ٹی ایچ کیو ہسپتال کی ایمرجنسی وارڈ میں ریسکیو کر کے پہنچایا گیا زخمیوں میں ارتضیٰ سکنہ مرزا کمبیلی، عدنان حسین غوثیہ محلہ، حامد علی سکنہ درکالی معموری، مبین حمید سکنہ تل خالصہ، اسماعیل سکنہ درکالی معموری شامل ہیں۔کلر سیداں پولیس لڑائی جھگڑے کی اس سنگین واردات پر مصروف تفتیش ہے اب تک تقریبا 60کے لگ بھگ افرادکے خلاف مقدمات درج کیئے جا چکے ہیں لیکن یہاں پر مسئلہ یہ ہے کہ ملزمان نے جو کچھ کیا ہے پولیس اس کو بلک اایک عام سا کیس تصور کر رہی ہے جبکہ ہسپتال انتظامیہ نے پولیس کے طریقہ کار پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے یہ صرف لڑائی جھگڑے کی واردات بنتی ہی نہیں ہے ملزمان نے ہسپتال کے املاک کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے عملے کو زخمی کیا اور ان کو خوف و ہراس میں مبتلا کیا ہے ان کے ساتھ ہاتھا ہائی کی ہے کار سرکار میں مداخلت کی ہے یہ سرا سر غنڈہ گردی اور دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے ملزمان کی اس حرکت سے ہسپتال انتظامیہ کے ساتھ ساتھ عام مریض جو اپنے کاموں کے سلسلے میں ہسپتال میں موجود تھے ان کو بھی نقصان پہنچا ہے ایم ایس کی طرف سے جاری کردہ فہرست کے مطابق ہسپتال کی لاتعداد انسٹومنٹ بلکل تباہ و برباد کر دی گئی ہیں جن کے نقصان کا اندازہ لگانا فی الحال بہت مشکل ہے دوسرا ہسپتال انتظامیہ کو سب سے زیادہ تشویش اس بات پر ہے کہ فوری طور پر اطلاع دینے کے باوجود پولیس کلرسیداں اتنی تاخیر سے کیوں پہنچی ہے دوسراپولیس اس واقعہ کی نوعیت کو کیوں سمجھنے سے قاصر ہے ان کی یہ بات بلکل درست ہے کہ ہسپتال اور تھانے کے درمیان صرف چند میٹرز کا فاصلہ ہے پولیس اگر وقت پر پہنچ جاتی تو شاید زیادہ نقصان نہ ہوتا لیکن ہماری پولیس کا اپنا ایک روایتی انداز ہے بہرحال اب پولیس کی یہ زمہ داری بنتی ہے کہ وہ ہسپتال انتظامیہ کے ساتھ بھر پور تعاون کرے جس طرح مقدمہ درج کرنے کا وہ مطالبہ کر رہے ہیں ویسا ہی کیا جائے یہ غنڈی گردی کا بہت بڑا واقعہ ہے اس واقعے سے چشم پوشی اختیار کرنا پوری انتظامیہ کے لیے شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے ان کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھیں گے ملزمان نے جس قدر بے دردی سے ہسپتال عملہ اور ان کے املاک کو نقصان پہنچایا ہے وہ کسی بھی طرح رعائت کے مستحق نہیں ہیں ان کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی کرنا بہت ضروی اور وقت کی اہم ضرورت ہے ہسپتال انتظامیہ کو اعتماد میں لانا اس وقت پولیس کی بڑی زمہ داریوں میں شامل ہے اس کے ساتھ ساتھ ہسپتال میں خدمات انجام دینے ولے سٹاف کے تحفظ کیلیئے سیکورٹی اقدامات پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے تا کہ آئندہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام ممکن ہو سکے۔
156