95

کشمیریوں کی آوازیں دھرنوں میں دب گئیں/ضیاء الرحمن ضیاءؔ

گزشتہ کئی ماہ ہو گئے کہ کشمیری اپنے حقِ خود ارادیت کے لیے سراپا احتجاج ہیں وہ بھارت سے آزادی چاہتے ہیں مگر بھارت ان پر مسلسل ستم ڈھا رہا ہے بھارتی افواج نہتے کشمیریوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنا رہی ہیں انہوں نے کشمیریوں پر تشدد کے نت نئے طریقے اختیار کیے ، معصوم بچوں پر ظلم کیاان کی بینائی تک چھین لی گئی ، سینکڑوں کی تعداد میں نوجوانوں کو شہید کیا گیا ،عورتوں کی آبرو ری ریزی کی گئی ، مسلمان مائیں بہنیں ان کی درندگی کا نشانہ بنیں، بزرگوں کو ستایا گیا ، ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے نوجوان بیٹوں کو گاڑیوں کے ساتھ باندھ کر گھسیٹا گیا اور ان کے جسم کے اعضاء الگ الگ کر دیے گئے ۔ یہ سب صرف اس لیے کیا کہ کشمیری اپنے حق خود ارادیت سے دست بردار ہو جائیں وہ بھارت کے زیر سایہ تشدد برداشت کر تے رہیں اور خاموشی سے زندگی بسرکرتے رہیں مگر کشمیر کے غیور عوام اب فیصلہ کر چکے ہیں کہ بھارت کے تسلط سے رہائی حاصل کر کے ہی دم لیں گے اس کے لیے انہوں نے بھارت کا ہر تشدد برداشت کر لیا، ہر ظلم سہہ لیا، ہر ستم اٹھا لیا مگر اپنے حق خود ارادیت کے مطالبہ سے ایک قدم پیچھے نہ ہٹے ۔ یوں تو گزشتہ ستر سال سے کشمیری بھارت کی بربریت برداشت کے رہے ہیں مگر حالیہ دنوں کشمیری اپنی آزادی کے حصول کے لیے کمر کس چکے ہیں اور بھارت نے تشدد میں بھی بے پناہ اضافہ کر دیا ہے ۔ کشمیریوں نے پاکستان کے پرچم اٹھا رکھے ہیں اور وہ پاکستان کے ساتھ محبت کا اظہار رہے ہیں ، آج انہیں پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے ان کی نظریں پاکستان پر ہیں مگر پاکستانی اپنے ہی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں ۔ کبھی جنگ کے خطرات اور کبھی دہشتگردی کے مسائل ،مگر ان سب سے ہٹ کر یہاں قابل ذکر یہ ہے کہ پاکستانیوں نے خود اپنے لیے بہت سے مسائل پیدا کر رکھے ہیں ، چند ماہ قبل آنے والی پاناما لیکس پر اتنا شور برپا ہوا کہ پورا ملک اس کی لپیٹ میں آ گیا ، پاکستان کی ساری سیاست پانامالیکس کے گرد گھومنے لگی ، ہر ٹی وی شو میں ایک ہی بات دہرائی جانے لگی ، وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کیا جانے لگا ،پورے ملک میں انتشار پھیل گیا ۔ عمران خان ہاتھ دھو کر وزیراعظم کے پیچھے پڑ گئے اور وزیراعظم اپنی جان بچانے کی فکر میں لگ گئے ۔شروع میں تو حکومت نے کشمیر کے لیے کچھ کوشش کی ، وزیر اعظم نے بھی کافی آواز بلند کی ، اقوام متحدہ میں بھی کشمیریوں کی کافی وکالت کی اور اپنی تقریر میں تمام تر توجہ کشمیر کے مسئلہ پر ہی مرکوز رکھی ، اس کے علاوہ پارلیمنٹ کے بائیس اراکین کو دنیا میں کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرنے کے لیے بھیجاجس کا مقصد دنیا کے سامنے بھارت کی بربریت کو بے نقاب کرنا اور کشمیریوں پر ہونے والے مظالم سے دنیا کو آگاہ کرنا تھا ، اس کے علاوہ بھی وزیراعظم نے کئی ممالک کے سربراہان سے بذات خود ملاقات کی اور انہیں کشمیریوں پر ہونے والے بھارتی مظالم سے آگاہ کیا اور دنیا کے سامنے بھارتی جمہوریت کی حقیقی تصویر کو عیاں کیا ۔ مگر جن دنوں کشمیریوں کی جدوجہد آزادی تیز ہوئی انہی دنوں پاناما لیکس کا شور برپا ہو گیا ۔ مسئلہ کشمیر اور بھارتی جارحیت کے حوالے سے پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا اس سے بھی عمران خان نے پاناما لیکس کی وجہ سے بائیکاٹ کیا اور وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کرتے رہے ، عمران خان نے 30ستمبر کو رائیونڈ جلسہ میں مودی کو دو چار باتیں سنائیں بعدازاں کشمیریوں کی آوازیں ان کے دھرنوں میں ہی دب کر رہ گئیں اور اتنے دن گزر گئے ہیں کہ کشمیریوں کی آزادی کے لیے حکومت کا کوئی اقدام تو دور کی بات ہے کوئی ایک بیان تک نہیں دیا گیااور بھارت کو کھلی چھٹی مل گئی تو انہوں نے بغیر کسی دباؤ کے کشمیریوں پر خوب ستم ڈھائے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ دنیامیں کشمیری مسلمانوں کی وکالت کرنے والا واحد ملک پاکستان ہے جو کشمیریوں کے لیے آواز اٹھانا چاہے تو اٹھا سکتا ہے مگر اس کے اپنے اتنے مسائل ہیں کہ وہ کشمیریوں کے لیے کچھ نہیں کر سکتا اوپر سے ملک میں اتنا انتشار پھیلا اور دھرنوں کی وجہ سے اتنے مسائل پیدا ہو گئے کہ کشمیریوں کی کسی کو یاد ہی نہیں آئی اور وہ بیچارے پاکستان کا پرچم اٹھا کر پاکستانیوں کی امداد کے منتظر جانیں دیتے رہے مگر یہاں کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور ہمارے سیاستدان اپنی ذاتی لڑائیوں میں مگن رہے ایک دوسرے سے کرسیاں چھیننے اور حکومتیں توڑنے جوڑنے میں مصروف رہے ۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بھی انتشار کی پرواہ کیے بغیر مسئلہ کشمیر کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کرے اور بھارت پر ہر ممکن دباؤ ڈالے تا کہ وہ کشمیریوں پر ظلم و ستم بند کر کے انہیں ان کا جائزحق دے ۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں