columns 203

وراثت میں عورت کا حق

دنیا میں بڑے اچھے اچھے لوگ دیکھنے میں آتے ہیں جو نماز پڑتھے ہیں روزہ رکھتے ہیں حج کرتے ہیں زکوۃ دیتے ہیں اور عمومی طور پر اچھے مسلمان جانے جاتے ہیں لیکن وہ بہنوں‘بیٹیوں سمیت دیگر خواتین کو وراثت میں ان کا حق دینے سے انکاری ہیں جس کا اسلام سختی سے حکم دیتا ہے کئی تو ایسے لوگ ہیں جو اپنی زندگی میں ہی اپنی جائیداد اور مال و دولت اپنے بیٹوں کے نام منتقل کر دیتے ہیں اس ڈر سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی جائیداد اور مال و دولت بیٹیوں کے ذریعے دوسروں کے پاس نہ چلا جائے اگر کسی نے ایسا نہ کیا اور اس نیت سے بھی اپنا مال چھوڑ دیا کہ مرنے کے بعداسلامی طریقہ اور قانون کے مطابق تمام وارث اپنی اپنی وراثت کا حصہ حاصل کر لیں گے لیکن اگر مرنے والے کے بیٹے‘ بیٹیاں ہیں تو بیٹا ایک ہو یا زیادہ اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ تمام جائیداد کو اپنے قبضہ میں لے کر بیٹھ جاتے ہیں بہنوں کو جذباتی طور پر بلیک میل کرکے بہلا پھسلا کر یا زبردستی جائیداد اپنے نام کروالیتے ہیں اور قربانی کاتقاضہ کرتے ہیں اگر کوئی بہن نہ مانے تو اس سے ناراض ہو جاتے ہیں اور اگر کوئی بہن اپنا حصہ لینے کیلئے قانونی کاروائی کرتی ہے تو اسے باغی تصور کرکے اس کے ساتھ بائیکاٹ کر لیا جاتا ہے ہمارے معاشرے کی اکثریت یہ بات کرتی نظر آئے گی اور اسے تصدیق بھی کرے گی کہ بہنوں نے بھائی یا بھائیوں کو اپنا حصہ معاف کر دیا یہ سب بلیک میلنگ کانتیجہ ہے یہ سب اس مائنڈ سیٹ کا شاخسانہ ہے جس کا اسلام اور اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں کوئی پوچھے کتنے بھائی اپنی بہنوں کو اپنا حصہ معاف کرکے وراثت سے دستبردار ہو جاتے ہیں نمازیں پڑھتے رہے روزے رکھتے ہیں حج اور زکوۃکے فرائض بھی ادا کرتے رہے یہ بھی کہتے سنتے رہے کہ یوم آخرت میں میں اپنے اعمال کا سخت حساب دینا ہے جانتے بوجھتے بھی کہ مال اور اولاد کیسے فتنہ بن جاتے ہیں ہم عمومی طور پر وہی کرتے ہیں جو اسلام کے حکم کے برعکس ہے بیٹیوں اور بہنوں کو ایسے مت دین کہ جیسے ان پر کوئی احسان کیا جا رہاہے ان کا تناسب کے لحاظ سے اسی طرح حق ہے جس طرح بیٹے باپ کے مال پر اپنا حق جتاتے ہیں یہاں پر اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بہنوں اور بیٹیوں کے شوہر اور سسرال والوں کی بھی ایسے مال پر نظر ہوتی ہے وہ چاہتے ہیں کہ ان کی بیوی بہو کو وراثت میں حصہ ملے تاہم یہی شوہر اور یہی سسرال والے اپنی بہنوں بیٹیوں کو ترساتے اور بلیک میل کرتے ہیں اور اپنے حق سے دستبرداری کیلئے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں جس کا ان کی بیوی‘بہو کو سامنا ہوتا ہے یہ مال دولت اور جائیدادبیٹی اور بیوی کا ہے اس پیسے یا مال و جائیداد پر شوہر یا سسرال والوں کی نظر نہیں ہونی چاہیے یہ صرف بہنوں بیٹیوں کا حق ہے کہ وہ کس طرح اپنے اس مال ودولت کو استعمال کریں اور اگر ان کے شوہرواقعی کسی مالی مشکل میں نہ ہوں تو جن بہنوں‘بیٹیوں کو اپنے والدین کی وراثت میں سے جو مال و دولت ملتی ہے وہ اسے اپنے ہاتھ میں رکھیں اس کا استعمال ایسے کریں کہ ان کی اپنی مالی ضرورتیں پوری ہوں اور انہیں کسی دوسرے کی طرف نہ دیکھنا پڑے یہاں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ بیوی ہو یا ماں ان کی ہر جائز ضروریات کو پورا کرنا مرد کی ذمہ داری ہے یہاں ایسے بھی مرد دیکھے گئے ہیں جو عورت کو وراثت میں حصہ ملتے ہی اس کے مال کو اپنے قبضہ میں لے کر عیاشیوں میں اڑا دیتے ہیں یا بیوی سے پوچھے بغیر اپنی مرضی سے اس مال کے مالک بن کر اسے خرچ کر دیتے ہیں ایسے کئی کیس سامنے آئے ہیں کہ شوہر بیوی کے درمیان طلاق ہو گئی اور یوں خاتون کا جو مال تھا وہ مرد کے ہی قبضہ میں رہا ہمارا قانون تو وہی کہتا ہے جو اسلام کی تعلیمات ہیں یعنی وراثت کی تقسیم شرعی احکامات کے مطابق ہو گی لیکن یہاں المیہ یہ ہے کہ
معاشرہ کے مرد کی طرح ہمارے نظام کا مائنڈ سیٹ بھی ایسا ہے کہ عورت اگر وراثت میں اپنا حصہ مانگے تو اس کیلئے اتنی مشکلات پیدا کر دی جاتی ہیں کہ اللہ کی پناہ یعنی کورٹ کچہری اور محکمہ مال کے دفتروں میں اسے اتنا خوار کر دو کہ کوئی عورت وراثت میں اپنا حصہ لینے کا سوچنا بھی چھوڑ دے پنجاب حکومت نے قانون بھی بنایا ضلعی لیول پر کمیٹیاں بھی بنائی گئیں اور یہ بھی وضع کیا کہ عورت کو وراثت کا حق اور اس کے حق کے مطابق تقسیم کو یقینی بنایا جائے اور اگر محکمہ مال کا افسر دو ماہ کے اندر ایسا نہیں کرے گا تو اس کے خلاف کاروائی ہو گی لیکن عملاََایسا کچھ نہیں ہو رہا جس کا تمام تر نقصان عورت کو ہو رہا ہے اسے وراثت میں اس حق سے محروم کیا جا رہا ہے جس کا حکم اسلام دیتا ہے اس بارے میں میڈیا بھی خاموش ہے حکومتیں اور ریاست بے سدھ ہیں حقوق نسواں والوں کو اس سے ملتا کچھ نہیں اس لئے این جی اوز کی بھی اس طرف کو ئی توجہ نہیں ان حالات میں وہ لوگ مبارکباد کے مستحق ہیں جو بہنوں‘بیٹوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق وراثت میں ان کا حصہ دیتے ہیں اور اپنی بیٹیوں‘بیٹوں کو اپنی زندگی میں تعلیم دیتے ہیں ان کی ذہن سازی کرتے ہیں کہ ان کے مرنے کے بعد ان کے مال میں سب کا حق ویسا ہی ہے جس کا فیصلہ اسلام نے کر دیا اور اس پر کسی کو کوئی احسان نہیں اور نہ کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ کسی بھی بہانے کسی دوسرے کا حق کھائے یا اسے معاف کر الے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں