بابر اورنگزیب/سینیٹ انتخابات میں پی ڈی ایم کے امیدوار کی جیت نے جہاں اپوزیشن جماعتوں کی قیادت میں نئی روح پھونکی ہے تو وہیں پر ان سیاسی جماعتوں کے ورکر بھی پرجوش ہیں اور یہی وجہ ہے کہ تمام اپوزیشن جماعتوں کے ورکرز نے جو پی ڈی ایم کا حصہ ہیں اس جیت پر اپنے طور بھرپور خوشی کا اظہار کیا ہے گزشتہ ڈائری میں بلدیاتی انتخابات کا ذکر کیا تھا کہ راولپنڈی خاص طور پر حلقہ این اے 59 میں سیاسی جماعتوں کی کیا صورتحال ہے اور کس جماعت کا پلڑا بھاری ہے اور کس کی کیا پوزیشن ہے اس ڈائری میں مسلم لیگ ن کی سیاسی صورتحال پر بتایا تھا کہ ماضی میں جس جماعت کے ٹکٹ کم اور ٹکٹ لینے والوں کی لمبی لائن ہوتی تھی اب مسلم لیگ ن کو این اے 59 کی کچھ یونین کونسل میں امیدوار تک نہیں مل رہے کیونکہ ماضی میں مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے اور جیتنے والے امیدوار و سیاسی نمائندے تاحال چوہدری نثار علی خان گروپ کے ساتھ کھڑے ہیں اور چند ایک تحریک انصاف کو پیارے ہوچکے ہیں اور اب اسی گروپ سے الیکشن لڑنے کے بھی خواہاں ہیں اور چوہدری نثار کے کسی بھی فیصلہ کا انتظار کر رہے ہیں اس ڈائری کے بعد مسلم لیگ ن کی صفحوں میں ہلچل دیکھی گئی ہے اور اس کے بعد مسلم لیگ ن متحرک ہوئی اور ہماری ڈائری میں بیان حقائق کو سنجیدہ لیتے ہوئے حلقہ این اے 59 کی بیشتر یونین کونسل میں خفیہ رابطوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور اپنے بلدیاتی امیدوار تلاش کرنا شروع کر دیے ہیں جن یونین کونسلز میں مسلم لیگ ن کو کوئی ایسا امیدوار نظر نہیں آرہا تھا جسکو بلدیات میں اتارے اور وہ الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں ہو وہاں پر اس نے چوہدری نثار علی خان گروپ اور پاکستان تحریک انصاف کے سابق بلدیاتی نمائندوں سے رابطے تیز کیے ہیں اور انکو آمدہ الیکشن میں ٹکٹ دینے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی ہے جس کے بعد چوہدری نثار گروپ کے کچھ تحفظات تھے کہ اگر مستقبل میں چوہدری نثار دوبارہ سے مسلم لیگ ن کا حصہ ہوں تو ایسے میں انکا مستقبل کیا ہوگا یعنی چوہدری نثار نے تو پھر انکو نہیں پوچھنا جو اان کے گروپ کو چھوڑ کر مسلم لیگ ن کا حصہ بنیں گے جس پر انجینئر قمر اسلام راجہ سمیت دیگر مسلم لیگ ن کے سیاسی قائدین کی طرف سے ایسے تمام امیدواروں کو جو اس خوف میں مبتلا تھے کہ چوہدری نثار کے آنے سے انکا مستقبل کیا ہوگا انکو مکمل یقین دہانی کروائی جا رہی ہے کہ وہ مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم پر واپس آجائیں کیونکہ چوہدری نثار علی خان نہ ہی مسلم لیگ ن میں واپس آئیں گے اور نہ ہی مسلم لیگ ن انکو واپس لے گی اس لیے اپنے اندر سے اس خوف کو نکال دیں کہ وہ واپس آئیں گے جس کے بعد بہت سے ایسے چہرے جو ماضی میں چوہدری نثار علی خان کے ارد گرد نظر آتے تھے یا ان سے سیاسی وابستگی رکھتے تھے وہ انکی باتوں سے مطمئن ہوگئے ہیں اور مسلم لیگ ن کے ساتھ چلنے کو آمادہ ہوچکے ہیں دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کی حالیہ مہنگائی کش پالسیوں اور دن بدن بڑھتی مہنگائی کے سبب انکا اپنا ورکر اور بلدیاتی انتخابات میں الیکشن لڑنے کا خواہش مند امیدوار بھی پریشان ہے کہ جب عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا تو بلدیاتی انتخابات میں عوام کیسے انکو ووٹ دے گی اسی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم لیگ ن حکومتی جماعت کے ان لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کر رہی ہے جو ماضی میں کونسلر سمیت کسی بھی سیٹ پر الیکشن لڑے ہیں اور اب وہ تحریک انصاف کا حصہ ہیں ایسے بہت سے لوگوں سے مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی خفیہ میٹنگ ہوچکی ہیں اور ایسے لوگوں کو اعتماد میں لیا جارہا ہے کہ وہ مسلم لیگ ن کا حصہ بنیں گے تو انکو ٹکٹ بھی دیا جائے گا اور انکی سرپرستی بھی کی جائے گی اس صورتحال میں کچھ یونین کونسل میں انکو خاطر خواہ کامیابی بھی ملنے کی امید ہے یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مسلم لیگ ن بلدیاتی انتخابات کے لیے پوری طرح سے میدان میں اتر آئی ہے اور جوڑ توڑ کی سیاست کر رہی ہے اب انکو اس کا کس حد تک فائدہ ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن بہت جلد مختلف یونین کونسل میں بہت سے دیگر جماعتوں کے مقامی قائدین سمیت چوہدری نثار علی خان گروپ کے لوگ مسلم لیگ ن کا حصہ بننے جارہے ہیں جس سے مسلم لیگ ن این اے 59 میں دوبارہ سے مستحکم ہوتی دکھائی دے رہی ہے جسکا فائدہ انکو نہ صرف بلدیاتی انتخابات بلکہ جنرل انتحابات میں بھی ہوگا اور اسکا نقصان حکمران جماعت سمیت چوہدری نثار علی خان گروپ کو ہوگا۔
222