127

نئی امریکی انتظامیہ سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے امکانات زیادہ نہیںٗ مسعود خان


اسلام آباد (نمائندہ پنڈی پوسٹ ) آزاد جموں و کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ جو بائیڈن کے قیادت میں امریکہ کی نئی انتظامیہ کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے امکانات زیادہ نہیں ہیں تاہم امریکہ سلامتی کونسل کے ایک با اثر رکن کی حیثیت سے مسئلہ کشمیر حل کر نے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ لندن کے سکول آف اکنامکس کی اسٹوڈنٹس یونین کے زیر اہتمام خارجہ امور کے ماہر کی حیثیت سے ایک ویبی نار سے خطاب کرتے ہوئے صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ نو منتخب امریکی صدر جوبائیڈن کی قیادت میں نئی امریکی انتظامیہ سے جموں و کشمیر کے عوام بجا طور پر توقع رکھتے ہیں کے وہ بھارت کو کشمیریوں کے قتل عام اور انسانی حقوق کی پامالیوں سے روکے گی لیکن اس کا سارا دارو مدار اس بات پر ہے کہ ہم اور امریکہ میں سات لاکھ سے زیادہ پاکستانی اور کشمیری نئی انتظامیہ کی پالیسی سازی میں اپنا اثر ورسوخ استعمال کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں مقیم پاکستانی اور کشمیریوں کو بالواسطہ بلا واسطہ امریکہ کے حکومتی اداروں میں ویسا ہی اثر و رسوخ حاصل ہے جیسے بھارتی امریکیوں کو حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں صد ٹرمپ کی حکومت نے پاکستان کی مدد سے افغانستان میں قیام امن کے لیے اہم پیش رفت کی اور تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے بھی ثالثی کی پیشکش بھی کی لیکن بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان مصنوعی توازن قائم کی کوشش میں مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے ثالثی کی پیش کش پر صدر ٹرمپ نے چپ سادھ لی۔ امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن نے اور نائب صدر کمالہ حارث نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت میں بیانات دیے تھے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ حکومت سازی کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعہ کشمیر حل کرنے میں کیا کردار ادا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے افغانستان کے حوالے سے جو حل طلب مسائل چھوڑے ان کے اثرات پاکستان میں بھی پڑ سکتے ہیں اس لے ہمیں جوبائیڈن انتظامیہ سے توقع ہے وہ افغانستان کے مسائل حل کرنے کے لیے افغان قیادت، پاکستان اور دوسرے شراکت داروں کے ساتھ بات چیت کا نیا سلسلہ شروع کریں گے۔ مقبوضہ کشمیر کے صورت حال کا تذکر کرتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ مقبوضہ علاقہ میں نسل کشی اور کشمیریوں کی زمین ہتھیانے کا سلسلہ پورے زور و شور سے جاری ہے۔ گزشتہ چار ماہ کے دوران بائیس لاکھ بھارتی ہندووں کو مقبوضہ کشمیر میں لا کر بسایا گیا اور بھارت کے ان تمام اقدامات کا مقصد مسلم اکثریت والی ریاست کو ہندو ریاست میں تبدیل کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی جارحانہ ہونی چاہیے اور مقبوضہ کشمیر کو بھارتی نو آبادی بننے اور کشمیریوں کے قتل عام کو روکنے کے لیے ہمیں اپنا ایک نیا بیانیہ تشکیل دینا ہو گا۔ بھارت کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات مسترد کرتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ تنازعہ کشمیر کا حل کثیر القومی سفارتکار ی کے ذریعے ہی ممکن ہے انہوں نے کہا کہ آج سے ستر سال پہلے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا جو حل تجویز کیا تھا وہی آج بھی قابل عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے دو طرفہ مذاکرات کو مقبوضہ کشمیر میں اپنے قبضہ کو مستحکم کرنے کے لیے اور کشمیریوں کو مذاکراتی عمل سے دور رکھنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس لیے دنیا کو احساس ہونا چاہیے کے مسئلہ کشمیر کے تین فریق ہیں جن میں کشمیریوں کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ویبی نار کے شرکا کے مختلف سوالوں کے جواب دیتے ہوئے صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ آزاد کشمیرا ور مقبوضہ کشمیر کے درمیان کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ آزاد کشمیر میں مقبوضہ کشمیر کے برعکس نا تو لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے نا پیلٹ گن کے استعمال سے آنکھوں کی بصارت سے محروم کیا جاتا ہے اور نہ ہی جعلی مقابلوں میں نوجوانوں کو قتل کیا جاتا ہے۔ آزا د کشمیر میں لوگ آزای کے ماحول میں اپنے زندگی گزار رہے ہیں جبکہ مقبوضہ کشمیر کو ایک کھلے جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے جہاں بھارت کی نو لاکھ قابض فوج ناقابل یقین مظالم ڈھا رہی ہے اور انسانی حقوق کی بد ترین پامالیوں میں مصروف ہے.

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں