تیزاب کی بُو اور شاپروں کی دلدل۔ ۔ پوٹھوہار کا اکلوتا دریا جو مر رہا ہے
موتی محل راولپنڈی اور گورکھپور کے مقام پرفلٹر لگانے والے کب بیدار ہونگے
موسمِ سرما کے آغاز کے ساتھ ہی پوٹھوہار کے آبی زخیروں پر مہمان پرندوں کی آمد شروع لیکن
۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔تیزاب کی بُو اور شاپروں کی دلدل۔ ۔ پوٹھوہار کا اکلوتا دریا جو مر رہا ہے۔یہ آبی پرندے روس اور یورپ سے ہزاروں میل کا فاصلہ طے کر کے پاکستان بھارت اور سری لنکا کے گرم پانیوں تک پہنچتے ہیں خطہِ استوا سے انتہائی شمالی علاقوں جن میں روس سائبیریا کے برفانی میدان اور شمالی یورب کے ممالک شامل ہیں سے ہر سال سرد موسم کے آغاز کے ساتھ ہی لاکھوں کی تعداد میں آبی پرندے اپنے سینچے گئے انڈوں سے نکلنے والے بچوں کو جوان کرنے کے بعد جان لیوا سردیوں سے محفوظ رہنے کے لیے جنوبی دنیا کا رخ کرتے تھے دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں ہمالیہ،قراقرم اور کوہٗ ہندوکش عبور کرنے ے بعدانہی عظیم پہاڑی سلسلوں کی ہتھیلی کہلانے والے پاکستانی علاقےِ پوٹھوہار اور ہزارہ کے دریا جھیلیں اورڈیم ان کے اولین پڑاو ہوتے تھے،لیکن بدقسمتی سے بڑھتی ہوئی انسانی آبادی اور اس کے نتیجے میں ماحول کو پہنچنے والے نقصانات سے جہاں فطرت کئی طرح مسائل سے جوج رہی ہے اس کی بھاری قیمت نہ صرف انسان خود بلکے یہ خوبصورت مہمان پرندے بھی ادا کر رہے ہیں دریا سواں جو کبھی ان کا پسندیدہ ترین ابتدائی مسکن تھا جہاں یہ پرندے ہزاروں میل طویل مسافت کی تھکن اتارتے تھے تا کہ سندھ اورہند کے کی اگلی منزلوں کے لیے محوِ سفر ہونے سے پہلے تازہ دم ہو سکیں لیکن افسوس آج کیمیکلز شاپینگ بیگ اور دیگر آلائشوں کے اٹا ہوا پوٹھوہار کا یہ واحد دریا خود اپنے وجود سے شرمسار نظر آتا ہے مرغابیاں کونجیں اور ہنس شاہد اپنے اس پرانے میزبان کا دکھ سمجھتے ہیں اس لیے وہ دم بھر کو اس کے کناروں پر بیٹھ کرآنسو بہاتے ہیں اور قبل اس کے کہ ٹوالیٹ کلینروں کے لیے استعمال ہونے والے تیزاب سے ان کے پَر جلنے لگیں اور پاؤں کسی بوسیدہ شاپر سے الجھ جائیں وہ اس مرتے ہوئے دریا پر آنسو بہا کر اس کے دہانے پر بسے کنکریٹ کے جنگل جنہیں ہم انسان شہر کہتے ہیں سے دُور کی جھیلوں کی تلاش میں کوچ کر جاتے ہیں۔اب تو اکثر مسافر پرندے آلودہ دریا کی بُو فضا ہی سے محسوس کر کے سواں کے کنارے پراُترنے کا ارادہ {jcomments on}ملتوی کر دیتے ہیں اسی طرح کی کسی کیفیت کی منظر کشی جواں سال مرحوم شاعر آنس معین نے کچھ اس طرح کی ہے
تھکن سے چُور بڑی سوگوار گزری ہے اُفق پہ دُور جو کُونجوں کی ڈار گزری ہے یہ پرندے تو ہماری کوتاہیوں کا ماتم کر کے اگلی منزلوں کو چلے جاتے ہیں لیکن اس کے کناروں پر صدیوں سے بسی آبادیاں بھی اب اس آلودہ ہوتے ماحول سے متاثر ہ ہو رہی ہیں یہ آلودگی زیرِزمین پانی تک میں سریت کرتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے جلد جگر معدے آشوبِ جشم اور دیگر انجانی بیماریاں پھیل رہی ہیں دریائے سواں سے تمام اقسام کی مچھلیاں اور سخت جان کچھوے تک مکمل طور پر ناپید ہو چکے ہیں سرکاری نگار خانے میں بیٹھے طوطی ہر دوچار سال بعد کاغذی منصوبوں میں کبھی موتی محل کے قریب شہر کی غلاظت پانی سے الگ کرنے کے لیے ٹریٹمنٹ پلانٹ لگا کربجلی اور گیس پیدا کرنے کے سُریلے گیت سناتے ہیں اور کبھی گورکھپور کے مقام پر فلڑ لگانے کی خوشخبری سنا کر لمبی نیند سو جاتے ہیں۔