آصف شاہ‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
سیا ست کو عوامی خدمت کے نعرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن وطن عزیز میں اس کا ایک ایسا رخ سامنے ہے کہ عوام یہ دعا کرتی ہے کہ کوئی ڈکٹیٹر ہی آجائے تاکہ کچھ لمحے سکون سے گزر جائیں سیاست میں گراس روٹ لیول پر بلدیاتی سیاست کو انتہائی اہم مقام حاصل ہے لیکن یہاں بھی ایک عجیب منظر ہے جمہوریت کی دعوے دار جماعتوں نے کبھی بلدیاتی سیاست کو پنپنے ہی نہیں دیا کیونکہ
اس طرح ان کے کمیشن مارے جانے کا خطرہ ہو تا ہے اور کون بے وقوف ہے جو اپنی روضی کو لات مارے سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی الیکشنوں کو ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے بالاآخر کروا دیا گیا اور وہ بھی قسطوں پر بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں نے بڑے شوق اور عوامی خدمت کا جذبہ لیکر الیکشن میں حصہ لیا اور عوام سے اپنا رابطہ رکھا بلدیاتی نمائندے اپنی یوسی کے ہر دکھ درد میں شریک ہوتے نظرآئے اور انہوں نے عوام سے ان کے کام دہلیز پر کروانے کے دعوے کیے لیکن یہ کیا بلدیاتی الیکشن کو لگھ بگھ ڈیدھ سال کو عرصہ ہونے کو ہے ابھی تک پوری ضلع راولپنڈی میں منتخب نمائندوں کو اختیارات کی منتقلی ممکن نہ ہو سکی ہے اور سب سے بڑی بات جن جن یوسیز میں ترقیاتی کام ہو رہے ہیں ان میں ان منتخب نمائندوں کا ہاتھ تک نہیں ہے ان سب کاموں کو اس حلقہ میں موجود ٹم ٹم کروا رہے ہیں جنہوں نے منتخب نمائدوں کو ڈیڈھ سال کے عرصہ مین تقریبا سائیڈ لائن کر کے رکھ دیا ہے یہ ٹم ٹم حلقہ میں ہونے والے ہر کام کا سہرا اپنے سر باندھ لیتے ہیں اور ہر کام کی مالا اپنے گلے میں ڈالنا پسند کرتے ہیں گوکہ کہ ان کی تعداد حلقہ میں بہت کم ہے لیکن یہ اپنے اثر رسوخ کے باعث ا ن سے مقابلہ ممکن نہیں ہے تو دوسری طرف مسلم لیگ ن کے بینر تلے منتخب نمائندے بھی اپنے حق اور عوام کے فلاح بہبود جس کے وہ الیکشن میں دعوے دار تھے کے کہیں آواز بلند کرتے نظر نہیں آتے ان منتخب نمائندوں پر اپنی مرضی کے ٹھیکدار بھی مسلط کر دیے گئے ہیں جو ترقیاتی کاموں پر عوام سے جو مذاق کر رہے ہیں وہ سب کے سامنے ہے لیکن منتخب بلدیاتی نمائندوں نے چپ سادھ رکھی ہے اگر کبھی کسی نے ہلکی سی کوشش کی کہ تو بھی اس کی اس کوشش کو سائیڈ لائن کر دیا گیا پچھلے ڈیڈھ سال سے جو مذاق ان بلدیاتی نمائندوں سے کیا جانا تھا وہ ہو گیا لیکن اب یہ نمائندے اپنے اور عوامی حقوق کے لیے میدان میں آنے کو تیار ہو گے ہیں زرائع سے پتہ چلا ہے کہ اب روات سے ملحقہ یوسیز کے متخب نمائندوں اور تحصیل کلرسیداں کی کچھ یوسیز نے اب ٹم ٹم کے خلاف ایک اتحاد بنانے پر غور کرنا شروع کر دیا ہے یہ اتحاد اپنی سفارشات کو چوہدری نثار علیخان تک نہ صرف پہچائے گا بلکہ اس کا حل بھی مانگے گاگزشتہ ہفتے ان کی ایک غیر رسمی بات چیت ہوئی ہے اس پر ایک منتخب چیئرمین کا کہنا تھا کہ ڈر ان کو ہو گا جو ن کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے ہیں ہم نے تو شیر کے ٹکٹ ہولڈر کو ہرایا ہے اگر ہمارے ساتھ ایسا رویہ روا رکھا گیا تو ہم کسی اور گھر کا رخ کریں گے ہم عوام کی ووٹوں سے منتخب ہوئے ہیں اور ان کو کل جواب دینا ہے لیکن ایک ٹولے نے ہمارا قیمتی سال سے زائد عرصہ ضائع کر دیا یہ ٹولہ ہماری محنت کا سارا کریڈٹ خود لے جاتا ہے اور یہ دونوں جانب سے فائدہ لے رہا ہے اور اوپر سے ہمارے سروں پر غیر منتخب نمائندوں کو مسلط کیا جا رہا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ہم چوہدری نثار علیخان کی عزت کے لیے دن رات ایک کر رہے ہیں اور ان کی نظر میں ہماری کوئی وقت ہی نہیں ہے ہمیں ایسے لوگوں کے ہاتھوں زلیل کیا جارہا ہے جو اگر خود عوام میں جائیں تو پچاس ووٹیں بھی نہیں لے سکتے ہیں اور ان کو ہمارے سروں پر بٹھا دیا گیا ہے اگر چوہدری نثار علی خان کو ا ن سے کوئی غرض ہے تو وہ انہیں اپنے پاس رکھیں لیکن ہمیں تو ایسے لوگوں سے زلیل نہ کروائیں جن کی اپنی کوئی عزت نہیں ہے ابھی تک تو خاموش صرف اس وجہ سے تھے کہ پارٹی کا مسلہ ہے لیکن اب پانی سر سے گزر چکا ہے ان نمائندگان کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے دوسری طرف چوہدری نثار علی خان نے بھی کبھی اس طرف توجہ نہیں دینے کی کوشش کی کہ جو لوگ عوام کی ووٹوں سے جیت کر آئے ہیں انہوں نے اس عوام کے سامنے پھر جانا ہے اور وہ عوام کو کیا منہ دکھائیں گے بلکہ وہ خود ان منتخب نمائندوں کو آنکھیں دکھا کر چلتے بنتے ہیں اور ان کے فنڈز کو بند کر دینے کی دھمکی دیتے ہیں بلکہ ان کواسی عوام کے سامنے شرمندہ ہونے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے بات ہو رہی تھی بلدیاتی نمائندوں کے اتحاد کی جو عنقریب منظر عام پر آئے گا لیکن ان میں سے ہی کچھ چیئرمینز کا کہنا تھا کہ اگر مسلے کو اٹھانا ہے تو پھر اس پر ڈٹ بھی جانا ہے یہ نہ ہو کہ کلر سیداں ایم سی جیسا نمونہ نہ بنے اور ہماری جگ ہنسائی جو کہ پہلے ہی ہو رہی ہے اور ہو جائے اب یہ اتحاد کب اور کیسے بنے گا بہت جلد عوام کے سامنے ہو گا اور اس کی ڈیمانڈ کیا ہیں اس کا انتظار عوام کو ہے اور منتخب چیئرمین کے لیے ایسے اقدامات ااس لیے ضروری ہیں کہ انہوں نے کل پھر عوام میں جانا ہے لیکن اگر وہ عوام سے کیے گے وعدے پورے نہ کر سکے تو جس عوام نے ان کو عزت دی ہے اور ان کے شملے کو اونچا کیا ہے وہی عوام ان سے جب حساب مانگے گی اور ان کے لیے جواب دینا مشکل ہو گا