محمد شعیب قریشی
کوئی بھی جمہوری ریاست چائے وہ مسلمان ہو یا پھر غیر مسلم ہو، اس کے پاس خزانہ اس کی قوم کی امانت ہوتی ہے ہمارے جمہوری ملک کے اند ر اس امانت میں خیانت کس پیمانے پر ہوتی ہے؟ پاکستان میں حکومت کا انتظامی ڈھانچہ صدر اور وزیراعظم سے شروع ہو کر کونسلر تک اختتام پذیر ہوتا ہے موجودہ دور میں اس حکومتی ڈھا نچے کے تمام پہئیوں کے چلنے کا سٹائل کچھ ہٹ کر ہے۔ وہ کچھ اس طرح کہ آجکل ہمارے ہاں کسی بھی سطح کے حکومتی نظام کو سنبھالنے کیلئے ایماندار ، شریف ، باشعور اور تعلیم یا فتہ ہونا اتنا ضروری نہیں جتنا ضروری امیر ہونا ہے۔ بس امیر ہونا ضروری ہے اس بات سے کوئی لینا دینا نہیں کہ یہ پیسہ آیا کہاں سے؟ جب یہ لوگ نچلی سطح پر حکومت میں داخل ہوتے ہیں تو ان میں سے تین خوبیاں ان لوگوں میں تھوڑی تھوڑی مقدار میں پائی جاتی ہیں، جیسا کہ امیری، ایمانداری اور شرافت جیسے ہی یہ لوگ حکومت میں داخل ہوتے ہیں پھر قومی خزانے کی خوشبو انہیں ایسے اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے کہ ان کی یہ بچی کھچی خوبیاں بھی اس میں گم ہو کر رہ جاتی ہیں پھر یہ لوگ اس خوشبو میں ایسے گم ہو جاتے ہیں کہ ہمیں ٹی وی کے علاوہ دور دور تک کہیں دکھائی نہیں دیتے‘ پھر یہ لوگ ہمیں بارہ ‘ تیرہ لاکھ روپے والی چھوٹی گاڑیوں میں نہیں بلکہ چار ‘ پانچ کروڑ والی بڑی گاڑیوں میں نظر آتے ہیں جس گاڑی میں یہ لوگ سفر کرتے ہیں وہ گاڑی اپنے پروٹوکول والی لاتعداد گاڑیوں کے جم و غفیرمیں اس طرح گم ہو جاتی ہے کہ آپ کو ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے یہ وہ لوگ ہیں کہ حکومت میں آنے سے پہلے ان کے پاس رہنے کیلئے دو سے تین گھر ہوتے ہیں اور حکومت میں آنے کے بعد ان کے پاس اندرون ملک اور بیرون ملک درجنوں فلیٹس ، فارم ہا وٗس اور بینکوں میں اربوں ڈالر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہاں پہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت میں آنے سے پہلے اور بعد ان لوگوں کے کردار اور رہن سہن میں ٖفرق کیوں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قومی خزانے کی صورت میں ان لوگوں کے ہاتھ سونے کی کان لگ جاتی ہے جس کی بدولت یہ لوگ آسمانوں میں اڑانیں بھرتے ہیں ایسا تو غیر مسلم ممالک میں بھی نہیں ہوتا جیسا اس اسلا می جمہوری ملک میں ہوتا ہے۔ کیسا اسلامی جمہوری ملک، جس میں حضرت عمر فاروقؓ جیسے اسلام کے عظیم حکمران کو ماننے والے رہتے ہیں‘ وہ اکیلے حضرت عمر فاروقؓ جنہوں نے22 لاکھ مربع میل زمین پر حکومت کی اور پاکستان کا تو کل رقبہ چندلاکھ مربع میل ہے جس کے اوپر درجنوں حکمران ہیں وہ عمر فاروقؓ جن کو تب تک نیند نہیں آتی جب تک ان کی رعایا کا ایک کتا بھی بھو کا ہو اور یہاں تو تھر میں درجنوں کے حساب سے مسلمانوں کے بچے بھوک سے موت کی نیند سو جاتے ہیں وہ عمر فاروقؓ جو اکیلے اپنے کندھے پہ منوں وزن کا آٹا اٹھا کر رات کی تاریکی میں گھر گھر جا کر لوگوں کی مدد کرتے ہیں اور یہاں اسلامی جمہوریہء پاکستان کے حکمران اپنے پروٹوکول والی گاڑیاں لے کر کسی گلی میں نہیں داخل ہوتے ، گھروں میں جانا تو دور کی بات۔ وہ عمر فاروقؓ جن کے دور حکومت میں کسی ایک کتے کے قتل کی مثال بھی نہیں ملتی اور یہاں دن دیہاڑے کبھی کلبھوشن کے ہاتھوں، کبھی رومن ڈیوس کے ہاتھوں تو کبھی بذات خود حکومت کے ہاتھوں ماڈل ٹاون میں معصوم اور بے گناہ جانوں کا قتل عام۔ وہ عمر فاروق جو اپنے نبیﷺ کی گستاخی میں اٹھنے والا سر تن سے جدا کر دیتے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں خود اسمبلیوں میں کھڑے ہو کر ختم نبوت میں ترمیم کروا کہ نبیﷺ کی گستاخی کی جاتی ہے اب آپ خود فیصلہ کر لیں کہ کیا یہ اسلامی اور جمہوری ملک پہ ایک سیاہ دھبہ نہیں ہے ؟ موجودہ صورتحال کے پیش نظر مجھے بانی پاکستان کی ایک بہترین بات یاد آتی ہے ، ایک مرتبہ آپ سے اسمبلی میں کسی نے چائے یا کافی کا پوچھا تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ جس وزیر کو بھی چائے یا کافی کی ضرورت ہے وہ اپنے گھر سے پی کر آئے ، یہ قومی خزانے کا پیسہ ہے جو صرف قوم کی خدمت کیلئے استعمال ہو گا۔ پس ہمیں بھی ایسی سوچ والے رہنماؤں کی ضرورت ہے جو قومی خزانے کی اہمیت کو سمجھ سکی
101