ہمارا دل کریں چھلنی تمھارے تلخ لہجے
کبھی پوچھو ہمی سے کہ سہے ہم نے ہیں کیسے
ہمیں مت دھمکیاں دے ہم نہیں ڈرتے ہیں ان سے
بتا کیا چیز ہے تو کہ ترے جیسے بھی دیکھے
تو کیوں پردہ نشیں ہے کیوں اٹھا دیتا نہیں ہے
کئی عشاق تیری اک جھلک پانے کو ترسے
ہے دانائی مرے اشعار میں گر کوئی سوچے
کوئی ہو اہلِ دانش جو مرے اشعار سمجھے
مری یاسر یہی ہیں رب کے آگے التجائیں
وہ جس نے تجھ کو تڑپایا ہمیشہ وہ بھی تڑپے
(شاعر‘یاسر صابری)
33