طالب آرائیں/پولیس چوکی قاضیاں‘جرائم کنٹرول کرنے والے انچارج کی ٹرانسفر۔چوری چکاری کی وارداتوں میں پھر اضافہ۔ٹرانسفر کے پس پشت کون ہے؟بعض اوقات ہم سے بہت بڑا ظلم سرزد ہوجاتا ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا قصور کسی اور کا خمیازہ کسی اور کے حصے میں آتا ہے اور زیادتی کا سبب بننے والے گناہ گار کوذرا بھر احساس نہیں ہوتا کہ وہ کتنی دانائی اور ہوشیاری سے کسی کے احساسات سے کھیلنے حتی کہ جان ومال سے ہی گذر جانے کا بندوبست کر چکا ہے لالچ اور طمع کسی بھی نوعیت کا ہو انسانی عقل پر پردے ڈال دیتا ہے کوئی کہیں عشق میں اندھا تو کوئی دولت کے لیے پاگل اور کوئی دیکھاوے کی چوہدراہٹ کا شوقین ہونے کے ناطے قانون تک سے کھلواڑ کرتا ہے۔سادگی کا چولا اور معصومیت کاروپ معاشرے میں انسان کو معتبر بنا دیتا ہے حتی کہ خطاوار ہوکر بھی وہ سزا ورا نہیں ٹھہر پاتا کیونکہ وہ خود کو شک کے دائرے سے دور رکھتا ہے اس معاشرے میں ایسے معتبر کثرت سے ملتے ہیں انسانی فطرت کو سمجھنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کائنات کے رمز کو زخموں پر مرہم کے بجائے جب ان پر نمک پاشی ہو تو انسان کافی اذیت محسوس کرتا ہے۔کچھ اس ایسی ہی اذیت سے ان دنوں بیول اور گرد ونواح کے عوام دوچار ہیں۔کچھ عرصہ قبل مسلسل ہونے والی چوریوں ڈکیتیوں اور لوٹ مار کی وارداتوں کے بعد بلا آخر قاضیاں پولیس چوکی کے سیاسی پشت پناہی کے حامل انچارج کی ٹرانسفر ہوئی اور ان کی جگہ اعجاز حسین نامی انچارج کی تعیناتی جس نے چارج سبنھالتے ہی اپنے پیشہ وارانہ تجربے کی بنیاد پر صرف چند ہی دنوں میں علاقے کو پرامن بنا دیا۔چوری ڈکیتی کی واردتیں زیرو پر لے آنا اس چوکی انچارج کی اپنے فرائض سے محبت اور عقیدت کے باعث ہی تھی لیکن اس ملک میں ایماندار اور فرض شناس سرکاری ملازمیں کو برداشت کرنے کا رواج ہی نہیں ہے۔اس فرض شناس آفیسر کے ساتھ بھی یہی ہوا اور صرف تین ہفتے بعد ہی اس کی ٹرانسفر کر دی گئی‘یا کروا دی گئی۔ظاہر ہے کہ ادارہ تو کبھی نہیں چاہے گا کہ اپنے زیر کنٹرول کسی علاقے میں بدامنی ہو اس لیے ادارے کی جانب سے اس آفیسر کا تبادلہ تو کیا نہیں جاسکتا اور وہ بھی صرف تین ہفتوں کی قلیل مدت میں یقیناً اس ٹرانسفر کے پیچھے ان ہی لوگوں کا ہاتھ ہوسکتا ہے جو علاقے میں وارداتیوں کے سرپرست ہوسکتے ہیں۔کیونکہ بے کاری اور بے روزگاری کسی کو بھی قبول نہیں چاہے وہ کاروبار لوٹ مار اور ڈکیتی کا ہی کیوں نہ ہو۔اعجاز حسین کی ٹرانسفر کے فوری بعد بیول اور گرد ونواح میں موٹر سائیکل چوری کی وارداتوں کے تسلسل کے علاوہ ڈکیتی کی ایک ناکام واردات بھی وقعہ پذیر ہوچکی۔جس سے بیول اور گرد نواح کے باسی ایک بار پھر عدم تحفظ کا شکار ہیں۔کیونکہ نئے انچارج کے آتے ہی لیٹرے ایک بار بے پوری طرح ایکٹو ہوچکے ہیں۔سمجھ سے بالا تر بات یہ ہے کہ جب ایک آفیسر کی تعیناتی علاقے کو مکمل پرامن بنا چکی تو اس کی ٹرانسفر کا مقصد کیا ہوسکتا ہے۔پہلے انچارج کے چارج چھوڑتے ہی موٹر سائیکلوں کی چوری اور ڈکیتی کی کوشش اور فائرنگ کی اطلاعات سے ثابت ہوتا ہے کہ تبادلہ جان بوجھ کر کروایا گیا کہ لوٹ مار پر مبنی کاروبار میں ملوث لوگ اور ان کے معتبر افراد اپنے گھناونے کام کو جاری رکھ سکیں۔کیونکہ اعجازحسین کی تعیناتی سے قبل تعینات چوکی انچارج درجنوں وراداتوں کے باوجود تبادلے سے محفوظ تھا جو عوامی ردعمل پر مجبوراً ٹرانسفر کیا گیا لیکن فرض شناس انچارج تین ھفتے میں کیوں اور کسے بھاری محسوس ہوا یہ کھوجنے کی بات ہوگی۔یاد رکھیں قدرت کبھی کسی ظالم کو معاف نہیں کرتی۔
بارود برستا ہو جہاں روز زمیں پر
اس دیس میں پھولوں کے زمانے نہیں آتے
جس دیس میں ہوں نوحہ کناں گلشن وصحرا
پنچھی وہاں آزادی کے نغمے نہیں گاتے
207