یاسر صابری
سید میر سکندر شاہ گیلانی نے 1860ء کو موضع للیال ،نزد سکھو(تحصیل گوجرخان) میں سید میر حسین شاہ گیلانی کے گھر آنکھ کھولی.سید میر سکندر شاہ گیلانی چار بھائی تھے جن کے نام میر بزرگ شاہ گیلانی ان کی زیارت پشاور ڈبگری گارڈن میں موجود ہے.دوسرے بھائی میر زمان شاہ گیلانی اور میر محمد شاہ گیلانی ان کی زیارتیں موضع بھیڈیاں ہزارہ کے نزدیک بھورہ شریف کے آبائی قبرستان میں موجود ہیں.سیدمیر سکندر شاہ گیلانی کے والد محترم کا مزار بھی سکھو میں موجود ہے.
سید میر سکندر شاہ گیلانی اپنے وقت کے بہت بڑے حکیم ،ولی اللہ اور پنجابی کے شاعر تھے.ان سے کرامات بھی منسوب ہیں.ان کے مریدین علاقہ بھر میں موجود تھے.سید میر سکندر شاہ گیلانی کے بڑے بیٹے کا نام سید میر محمود علی شاہ گیلانی،دوسرے بیٹے سید میر ودود علی شاہ گیلانی اور تیسرے بیٹے سید میر مسعود علی شاہ گیلانی تھے.ان میں سے سید میر محمود علی شاہ گیلانی اور سید میر مسعود علی شاہ گیلانی کی اولادیں موضع للیال نزدسکھو (تحصیل گوجرخان) میں موجود ہیں.
سید میر سکندر شاہ گیلانی کے والدین کی اور ان کے کل خاندان کی قبریں سکھو ،شیخ سعدی معروف بہ دیوان شیخ شادی قبرستان میں موجود ہیں. سید میر سکندر شاہ گیلانی کے دادا مبارک سید میر رضا شاہ گیلانی کی قبر شیخ شادی قبرستان سکھو میں ہے جن کی بیھٹک موضع للیال میں موجود ہے جہاں پر لقوے،فالج اور باؤلے کتے کے کاٹے ہوئے مریض فیض یاب ہونے کے لیے آتے ہیں. سید میر سکندر شاہ گیلانی نے10دسمبر1935ء میں وفات پائی اور آپ کو بھی درگاہِ شیخ سعدی معروف بہ دیوان شیخ شادی کے جوار میں دفن کیا گیا.(۱) سید میر سکندر شاہ گیلانی کی ایک سی حرفی گل فنا مر8جون 1934ء میں شایع ہوئی .نمونۂ کلام
ع. عقل شعور کل دُور ہویا جس دم لگا تقدیر دا تیر میاں
داد منگدا رہیا فریاد کردا کوئی نہ پہونچیا پیر فقیر میاں
میری سبز شاخ دی اُمید ٹٹی کیتا جس نے پکڑ ظہیر میاں
سکندر شاہ سخت گذری نال میرے کراں شکر لکھ اتے تقدیر میاں
*
غ. غم تقدیر دا تیر چھٹیا گیا تیر کلیجڑا پار میاں
بحرِ غماں وچہ گیا رڑہا سانوں نہیں دِسدا کنڈہا کنار میاں
ڈگا پھل گلاب دا ہتھ وچوں چاروں طرف دسے خس و خار میاں
سکندر شاہ کہہ تقویٰ رَب اُتے فضلوں پار چڑہاوسی تار میاں
98