تحریر:سرمد بٹ
بلدیہ کلرسیداں کا مرکز کلرسیداں سٹی گوں نہ گوں مسائل کا شکار ہے‘ یوں تو بلدیہ کلرسیداں سٹی سمت حدود بلدیہ پر کروڑوں روپے سالانہ خرچ کرتی ہے مگر پھر بھی مسائل ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے کبھی بجلی‘ کبھی پانی تو کبھی گیس حالیہ مسئلہ سوئی گیس سے متعلق ہی ہے۔ سردیوں میں گیس کے استعمال میں اضافہ ہوتا ہے تو گیس کلر سٹی کی پائپ لائنوں میں عنقا ہو جاتی ہے اور گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں ایسی صورتحال بنتی ہے کہ عوام دہائیاں دینے لگتی ہے‘ ایک طرف ٹھنڈے پانی سے زبردستی منہ دھلوانے پر بچے گلا پھاڑ کر بین کر رہے ہوتے ہیں دوسری جانب چولہے پر ماچس کی تیلیاں سلگاتی ماں چولہے میں آگ نہ جلنے پر جل بھن کر حکومت حکمرانوں محکمہ گیس کو کوسنے دے رہی ہوتی ہے کوئی حمام کی جانب لپک رہا ہوتا ہے تو کو بیکری تندور پر بھاگا جا رہا ہے کہ کسی طرح ناشتے اور تیاری کا مرحلہ ختم ہو تو دن کا آغاز کیا جائے‘ دن تو خیر گزرجاتا ہے کمبخت ٹھنڈک سے کپکپاتا جسم سرد راتوں میں حرارت کا متمنی ہوتا ہے تو ہیٹر کو ہاتھ لگانے سے بھی سردی کا احساس مزید بڑھ جاتا ہے کے گیس ہو گی تو جلے گا خیر یہ ہر سال کے منظر نامے کا کچھ حصہ ہے اصل مناظر اس سے بہت بڑھ کر ہیں‘سو عوام کے دہائیاں دینے اور احتجاج پر حکومتی نمائندگان نے کلر سٹی میں گیس کے پریشر کا مسئلہ حل کرنے کی یقین دہانی کروائی جس کے لئے اڑھائی کروڑ روپے کی لاگت سے مین لائن پر ایس ایم ایس سسٹم لگانے کی خوشخبری سنائی گئی جو اب تک نہیں لگا اور تخمینہ بھی ابتدائی اعلان کے برعکس بڑھ چکا ہے‘ کلر سٹی میں پرانی بوسیدہ اور کم قطر والی بوسیدہ پائپ لائنیں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور کام بھی شروع گیا شہر بھر کی کئی گلیوں میں تازہ پڑنے والی کنکریٹ کو درمیان میں سے کاٹ کر پرانی لائنیں نکال لر نئی لائنیں ڈالی گئیں گویا شہر بھر کا بائی پاس کر دیا گیا مگر المیہ یہ ہے کہ کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر کی جانیوالی اندرون شہر کی گلیوں کو توڑا تو گیا مگر تاحال ان کی دوبارہ مرمت نہیں کی گئی بلدیہ حکام کا موقف یہ کہ یہ محکمہ گیس کہ ذمہ داری ہے اکھڑی گلیوں کو کام مکمل ہونے پر مرمت بھی کیا جائے اور یہ درست موقف ہے مگر محکمہ گیس کو کون پوچھے کہ خلائی مخلوق کی طرح کبھی کسی کو کوئی نظر آئے تو پوچھا جائے دفتر شفتر کوئی ہے نہیں ذمہ دار عملہ مفقود ہے۔ موسم بدل رہا ہے جلد ہی حبس کا زور ٹوٹے گا اور جاڑے کی سردی در آئے گی اور گیس پریشر کا مسئلہ پھن پھیلائے سامنے کھڑا ملے گا گو کہ کوشش کی تو مسئلہ حل کرنے کی گئی ہے مگر مسئلہ اب کچھ اس طرح کا ہے گیس کی نایابی کے ساتھ شہریوں کو ٹوٹی گلیوں پر بھی سینہ پیٹنہ پڑے گا۔