305

زندگی کا مقصد

اگر ہم بیٹھ کر تھوڑی دیر سوچیں کہ ہماری زندگی کا کیا مقصد ہے کیا Vision ہے کیا ہم یوں ہی فالتو کی پیداوار ہیں، ہمیں تخلیق کرنے والے نے اگر بغیر مقصد کے ہمیں تخلیق نہیں کیا اس کا بھی کوئی مقصد تھا ہمیں تخلیق کرنے کا تو تھوڑا وقت نکال کر سوچیں تو سہی کہ ہم کیوں تخلیق کیے گئے ہیں۔ اس سارے اتنے پیچیدہ اور حساس پراسس کا مقصد کیا ہے کیا ہم یوں ہی آئے سانسیں لی کھایا پیا اور زندگی سے لطف اندوز ہوکر موج اڑائی اور مر جائیں گے؟نہیں بالکل نہیں، خدا ہم سے کچھ چاہتا ہے‘ خدا نے اپنی شناخت کیلئے پیدا کیا ہے ہمیں خدا کا نام تو پہلے بھی تھا مگر اس نے ایک تمام تر شعوری و صفاتی مخلوق پیدا کر کے اپنا نام مذید زندہ و قائم کر لیا وہ خدا ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے مگر تھوڑا سا غور کیجیئے کہ خدا اپنے علاوہ کسی اور کے ذکر کے بلند ہونے کا بھی قائل ہے۔ وہ چاہتا ہے میرے ساتھ کسی اور کا ذکر بھی بلند ہو اس کا بھی تذکرہ ہو اس کی بھی اپنی شناخت ہو جان پہچان ہو، دنیا اس کا بھی نام لے اور وہ کون ہے جس کا خدا اپنے بعد ذکر بلند دیکھنا چاہتا ہے وہ آپ ہیں وہ میں ہوں وہ اللہ تبارک و تعالی کی اشرف مخلوق یعنی ہم انسان ہیں اللہ تعالیٰ اپنی مقدس کتاب میں کہتے ہیں کہ ہم نے الیاسؑکا ذکر بعد کی نسلوں میں باقی رکھا ایک جگہ کہتا ہے ہمارے بندے ایوب ؑ کا بھی ذکر کرو اور پھر تھوڑا آگے چل کر کہتا ہے میرے بندوں ابراہیم اسحاق اور یعقوب کا بھی ذکر خیر کرو جو قدرت اور علم والے تھے، بلکہ ایک جگہ پھر کہتا ہے کہ اسماعیل، الیسع اور ذوالکفل کا بھی ذکر کرو اور قرآن مجید فرقان حمید میں جابجا لکھا آپ کو ملے گا کہ یہ واقعہ بھی آپ کیلئے قابل ذکر ہے

وہ واقع بھی آپ کیلئے خیر ہے۔ سوچئے تو سہی یہ تمام واقعات کس کے واقعات ہیں؟ کسی اور مخلوق کے نہیں بلکہ ہمارے آباؤاجداد کے واقعات جو اللہ کو بہت بھائے کہ قرآن جیسی کتاب میں شامل کرنے پڑے‘ یقینا اللہ تعالی ہماری بھی پہچان چاہتا ہے وہ چاہتا ہے یہ میری لاڈلی مخلوق ہے یہ چند خاص زندگی کے ایام سوتے ہوئے ہی یا غفلت میں نہ گزار کر آجائے بلکہ یہ محنت کریں ان کا بھی نام ہو پہچان ہو شہرت ہو بلندی ہو۔ ان کے بھی بعد والے ان کو اچھے لفظوں میں یاد کریں‘ یہ مقدس کتاب جس ہستی پر اتری ہے حضرت محمد مصطفی ؐان کو خود خدا کہہ رہا ہے کہ”ہم نے آپ کا ذکر بلند کر دیا ہے اور آپ کو بہت مشہور کر دیا ہے اور ہمیشہ کیلئے زبردست عزت اور شہرت بخش دی ہے اور پھر کیا وجہ کہ ہم کچھ نہ کریں اللہ کے پھیلائے ہوئے علم کو جو خود ہمیں ڈھونڈ رہا ہے سمیٹیں نہ‘اگر اللہ ہمارا ذکر بلند دیکھنا چاہتا ہے ہم کیوں گمنامی میں مر جائیں‘ہم کیوں محنت نہ کریں جو ہمیں زندہ رکھ سکے‘جو ہمارے مرنے کے ہزار سال بعد بھی ہمیں زندہ و جاوید رکھ سکے‘ موت کی ہم لوگوں نے بہت ہی ادنی اور حقیر سی ڈیفینیشن کی ہوئی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری سانسیں بند ہوجائیں تو ہم مر جاتے ہیں۔ یا موت صرف جسم سے روح الگ ہونے کا نام ہے یہ موت کے حوالے سے ہمارا بہت ہی غلط نظریہ ہے۔ حالانکہ موت روح سے جسم الگ ہونے کا نام نہیں اس کو مرنا نہیں کہتے بلکہ مرتا وہ ہے جس کا بقول قرآن کے حوالہ ختم ہوجاتا ہے جس کا ذکر ختم ہوجاتا ہے۔

جس کو پیچھے یاد کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ دس بیس سال بعد جس کو لوگ بھول جائیں‘سقراط کو دنیا آج تک کیوں جانتی ہے اس نے زہر کا پیالہ بھی بڑے شوق سے پی لیا تھا اس نے شوق سے کیوں پیا تھا؟ کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ وہ مر نہیں سکتا اس نے جو محنت کی ہے وہ اسے مار نہیں سکتی‘بظاہر بس روح جسم سے الگ ضرور ہوتی ہے مگر یاد رکھیں اس کو موت نہیں کہتے اس کو ایک نئی زندگی کہتے ہیں۔ ہمارا بے رنگ و نور زندگیاں گزارنے کا کیا فائدہ اگر ہمارے خاندان میں کوئی انتقال کر جائے اور لوگ ہمارے حوالے کے ساتھ اعلان بھی نہ کر سکیں۔ہمارے بہت سارے لوگوں کے مرنے پر ان کے بیٹوں کا حوالہ نہیں دیا جاتا بلکہ یوں کہاں جاتا ہے کہ فلاں کا ماموں یا فلاں کا چاچو انتقال کر گیا ہے‘ کیوں؟کیونکہ بیٹوں کو اس معاشرے میں کوئی جانتا نہیں ان کی کوئی پہچان نہیں اور اس طرح کی زندگی گزارنے کا کیا فائدہ آپ کی معاشرے میں کوئی عزت نہیں‘آپ کی موجودگی میں کوئی عزت نہیں بعد میں کیا ہوگی۔ آپ تو جیتے جی مرے ہوئے ہیں انتقال کر چکے ہیں۔ ہم سب کی شناخت پہلے سے قائم ہے صرف اس کو ڈھونڈنا ہے اس کو پالش کرنا ہے اس کو پہچاننا ہے۔ ہماری شناخت پہلے سے کہاں قائم ہے؟ قرآن آپ کی شناخت کا دعویٰ کررہا ہے قرآن کہہ رہا ہے کہ آپ سب میرے دائرے میں پوشیدہ ہو‘قرآن کی یہ آیت مجھے بہت پیاری لگی جو میں یہاں بیان نہ کروں گا تو زیادتی ہوگی‘قرآن کہتا ہے ”لوگو ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے

جس میں تمہارا ہی ذکر ہے کیا تم سمجھتے نہیں ہو؟یار کتنی خوبصورت آیت اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمائی ہے اور کتنے عاجزانہ انداز میں آگے کہہ رہا ہے کہ تم کیوں نہیں سمجھتے ہو کہ تمہارا ذکر تمہاری شناخت کتاب میں موجود ہے۔ لیکن وہ تمہیں یوں نہیں ملے گی‘ ڈھونڈنی ہوگی‘ محنت کرنی ہوگی‘گر آپ نوجوان ہیں کل اپنے آپ کو کسی مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں تو بیٹا ابھی سے خواب دیکھنا شروع کر دیں آپ سب کی زندگی کا کوئی نہ کوئی خواب ہونا چاہیے کوئی مقصد ضرور ہونا چاہیے‘ کیوں کہ آج آپ کی نوجوانی کی محنت آپ کے کل کے ساتھ جڑی ہے آپ کے بڑھاپے کے ساتھ جڑی ہے بلکہ آپ کی نوجوانی کی محنت آپ کے کل کے بچوں کے ساتھ جوڑ ڈی گئی ہے، بیشک آپ کی ابھی شادی نہیں ہوئی مگر کل آپ کے بچوں کو اچھا مقام آج آپ کی جوانی کی محنت سے ملے گا۔حالات آپ لے سامنے ہیں دن بدن مشکل ہوتی جارہی ہے اور یہ مت سمجھیے کہ کل آسانی ہوگی بہت مشکل ہوگی۔

آپ کا بڑھاپا کیسا ہوگا اس کا اختیار بھی آپ کی آج کی محنت کے سپرد ہے۔ اپنا ایک مقام بنایئے ایک پہچان بنایئے لوگ آپ کے ساتھ بیٹھیں گپ شپ کریں خوشی محسوس کریں اور آپ کی تعریف کریں۔ آپ کو ہر محفل میں یاد کریں اور خود کو کامیاب کریں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی وقت تھوڑا ہے اور کام زیادہ ہے انتظار مت کریں ہماری نماز میں ہی ہمارے لیے بہترین سبق ہے نماز میں ہر رکن ایک ایک مرتبہ ہے صرف سجدہ دو مرتبہ ہے پہلا اس لیے کہ ہم مٹی سے پیدا ہوئے ہیں دوسرا اس لیے کہ ہمیں واپس اسی مٹی میں جانا ہے اور دونوں سجدوں کے درمیان مختصر سے وقت کو زندگی کہا جاتا ہے‘ اس لیئے اس مختصر سے وقت کو اگر آپ آنے والوں کیلئے یادگار بنا دیں تو کیا ہی بات ہے۔ زندگی میں اپنی ذات کی پہچان کیلئے ضرور وقت نکال کر تخیل کے دریچوں کو تازہ ہوا کیلئے کھولا کریں‘ ہم کسی مقصد کے بغیر پیدا نہیں کیئے گئے تو ہماری زندگیاں کیوں بغیر مقصد کے گزر جائیں آخر پر ابو المعانی میرزا عبدالقادر بیدل کے اس شعر پر اختتام کرتا ہوں کہ
نہ شادم‘ نہ مخزوں‘ نہ خاکم‘ نہ گردوں
نہ لفظم‘ نہ مضموں‘ چہ معنیستم من

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں