وطن عزیز میں سیاست کو اگر بے رحم کھیل کہاجائے تو بے جا نہ ہو گا مگر ہمارے ہاں معزز سیاستدانوں کے اس کھیل کی بدولت سے ان کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں وہ نہ صرف اپنی تجوریاں بھرتے ہیں بلکہ اپنے کارخاصوں کو بھی اس کھیل کو کھل کر کھیلنے کا
موقع دیتے ہیں ہر فلاحی ریاست کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی عوام کے مشکلات کا ازالہ کرے ق لیگ کے دور میں لینڈ ر یکارڈ کے لیے بہت کام شروع کیا گیا تھا لیکن اس دوران ق لیگ کی حکومت گئی اور پنجاب کے نئے وزیراعلی میاں شہباز شریف نے عوامی خدمت کا بیڑا اٹھایا اور اس کے لیے بھرتی کا عمل شروع کیا گیا لیکن بدقسمتی سے اس کی بھرتی ہی غیر شفاف ہوئی اور نااہل اورکرپٹ لوگ پیسے کے بل بوتے پہ بھرتی ہوگئے جس کا اعتراف خود میاں شہباز شریف اور رانا ثنااللہ نے بھی کیا ،دوسری طرف عوام نے سکھ کا سانس لیا کہ ان کی جان کرپٹ مافیا سے چھوٹ جائے گی کہ اب زمین اور جائیداد کا معاملہ بس کمپیوٹر کی ایک کلک سے منسلک ہوگیا ہے عوامی مسائل کے حل کے لیے اسی طرح کا ایک شاندار اراضی سینٹر روات میں بھی بنایا گیا اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ وفاقی وزیرداخلہ کے علاقہ میں ہے اور وہ سخت آدمی ہیں ایکشن لیتے ہیں لیکن اس ریکارڈسینٹر نے تو ریکارڈ ہی توڑ ڈالے ہیں غریب لوگوں کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان کو اور پیچیدہ بنا دیا گیا ہے ضلع راولپندی کو تقریبا آدھا ریکارڈابھی تک کمپیوٹرائزڈ ہی نہ کیا جا سکا ہے،ملی بھگت نے عوام کو ایک فٹبال بنا کر رکھ دیا ہے اگر کوئی سائل پٹواری کے پاس چلا جائے تو وہ اس کو طنزیہ کہتے ہیں کہ وہ ریکارڈ سینٹر میں جائے جب وہ اراضی سینٹر جاتا ہے تو عملہ کہتا ہے کی آپ کا ریکارد مکمل ہی نہیں ہے،جب پٹواری اور گرداور سے بات کی جائے تو وہ چہرے پر مسکراہٹ لاکر کہتے ہیں اگر سب کچھ اراضی ریکارڈ سینٹر میں ہی حل ہو جائے تو ہماری دال روٹی کیسے چلے گی۔پنجاب حکومت کی نیک نیتی اپنی جگہ لیکن غریب عوام کا کیا قصور ہے دوسال کا عرصہ گزر جانے کو باوجود وہ لوگ جو زمین کے حقیقی مالک تھے اب لاوارث بن چکے ہیں اس میں پٹواری باشاہوں کی مہربانی کے ساتھ ساتھ اراضی سینٹر کی بھی مہربانیاں شامل ہیں یونین کونسل لوہدرہ سے تعلق رکھنے والا ایک غریب شخص پچھلے کچھ ماہ سے اپنے فرد کی تلاش میں ہے اس کا کہنا ہے کہ پٹواری بادشاہ تو اپنے موضع میں بیٹھنا بھی گوارا نہیں کرتے ایک موضع کے پٹواری بادشاہ کا ٹھکانہ شادی دھمیال اڈیالہ روڈ ہے تو اسی موضع کے ایک پٹواری کوہ نور مل کے پاس تشریف رکھتے ہیں اور ان سے ملنے کے لیے آپ کے پاس گاری کی بکنگ کے پیسے ہونے چاہیے اول وہ ملتے ہی نہیں اگر مل بھی جائیں تو ان کی ڈیماند سن کر اوسان خطا ہو جاتے ہیں اس کا کہنا تھا کہ اگر آپ کو فرد مل بھی جائے تو وہ صحیح بنا کر نہیں دیتے اور اگر آپ دوبارہ فرد بدر کے لیے چلے جاتے ہیں تو آپ سے وہ چالیس سے پچاس ہزار کی ڈیمانڈ کرتے ہیں بصورت دیگر آپ کی اپنی زمین آپ کو مل ہی نہیں سکتی پٹواری بادشاہ اس میں ایسا رد بدل کرتے ہیں کہ وہ جگہ آپ کو شائید خلا میں ہی مل سکے دوسری طرف اراضی سینٹر میں اس وقت ٹاوٹ مافیا اور پراپرٹی ڈیلروں کا قبضہ ہے آپ اس ٹاوٹ مافیا کی جیب گرم کیے بغیر کسی صورت بھی اپنا جائز کام نہیں کرواسکتے اس ٹاوٹ مافیاء کی پہنچ بہت اوپر تک ہے اوپر سے اراضی سینٹر کا عملہ بھی ان کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے وہ صرف انہی لوگوں کا کام کرتے ہیں جن کا یہ مافیا ٹیلیفون پر کام کرنے کا کہتا ہے روات اراضی سینٹر میں اندھیر نگری اور چوپٹ راج کی ایک مثال اور بھی ہے کہ اگر آپ نے دن کے 10بجے تک ٹوکن لے لیا توبہت اچھا ورنہ اس کے بعد ٹوکن بند اور اب یہ کام بھی آپ کو پیسے دیکر کروانا پرے گا اوپر سے اس عملے کی شاندار کارگردگی کی مثال کہاگر آپ ٹوکن لیتے ہوئے فنگر پرنٹس کا مسلہ ہو گیا تو یہ آپ کو نادرا کی طرف ریفر کر دیں گئے اور آپ کو وہاں سے بھی ویری فکیشن کروانا ہوگئی آپ کی ویری فکیشن وہاں بھی ہو سکتی ہے لیکن اس کے چارجز آپ کو الگ سے دینے ہوں گئے آپ نے خوش قسمتی سے ٹوکن حاصل کر بھی لیا تو نمبر آنے پر آپکو بتایا جائے گا کہ آپ کا ریکارڈ ہی موجود نہیں ہے دوسری طرف انتظامیہ بھی اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتی کیونکہ عملہ اور بااثر مافیا کہ وجہ سی ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہو سکتی اس کی ایک مثال کہ روات اراضی سینٹر میں کمشنر صاحب نے شکایات پر چھاپہ مارا اور ایک اہلکار کو گرفتا ر کروایا لیکن اگلے ایک گھنٹے میں وہ موصوف دوبارہ اپنی سیٹ پر پہنچ چکے تھے اور چہرے پر ایک ہلکی مسکرا ہٹ لیکر عوام کی خدمت کر رہے تھے روات اراضی سینٹر اس وقت مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے عوامی مسائل کے حل کے لیے کروڑوں روپے خرچ کر کے بنایا جانے والا یہ سینٹر عوام کو اور مسائل میں مبتلا کر رہا ہے،غریب اور سادہ دیہاتی اپنی ہی زمینوں کے کاغذات حاصل کرنے کے لیے ذلیل اور خوار ہو رہے ہیں ان کا مداوا کون کرے گا ان کی نظریں چوہدری نثار علیخان کی جانب ہوتی ہیں لیکن انہوں بھی کبھی گوارا نہیں کیا کہ اس کا کوئی حل نکالا جائے اگر اس کا حل نہ نکالا گیا تو عوام یوں ہی ذلیل ہوتی رہ گی اور عوام کی زلالت کی کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔{jcomments on}