تحریر چوہدری محمد اشفاق
رمضان آتے ہی اشیاء خور دونوش کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہو جا تا ہے ۔اور ہر سال یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ قیمتیں نہیں بڑھنے دی جائیں گی لیکن قیمتیں پھر بھی بڑھ جاتی ہیں پرائس مجسٹریٹ چیکنگ تو ضرور کرتے ہیں اور جرمانے بھی کرتے ہیں لیکن جرمانہ ادا کرنے کے بعد وہی دکاندار جو کوئی چیز 100 روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کر رہا تھا وہی چیز اب وہ 150 روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کرنا شروع کر دے گا کیوں کہ اس نے جرمانے کی رقم بھی اسی کھاتہ سے پوری کرنی ہے اور ایسا محسوس ہو تا ہے کہ قیمتیں کنٹرول کرنا کسی کے بس کی بات ہی نہیں رہی ہے جرمانے اور چیکنگ محض رسمی کاروائی ہی نظر آتی ہے رمضان کی آمد سے ایک ہفتہ قبل ہی روزے دار روزے کے اہتمام میں مصروف ہو جاتا ہے اور اپنی جائے عبادت کو صاف ستھرا کرواتا ہے تاکہ رمضان شریف کی برکات سے بھر پور فائدہ حاصل کر سکے ۔رمضان میں جنت کے ساتھ ساتھ تو بہ کا دروازہ بھی کھل جاتا ہے اور ا س ماہ میں صدق دل سے کی ہوئی توبہ قبول بھی ہوتی ہے ۔دوسری طرف ناجائز منافع خور بھی اس ماہ میں متحرک ہو جاتے ہیں اور ان کے خیال کے مطابق صرف یہ ہی ایک مہینہ ہے جس میں خوب کمائی حاصل ہو سکتی ہے ۔اس کے برعکس دیگر ممالک بلخصوص برطانیہ میں رمضان شریف کی آمد سے ایک ہفتہ قبل اور ایک ہفتہ بعد رمضان پیکچ نافذ العمل ہوجاتا ہے جس کے مطابق مسلمانوں کے لیے تما اشیاء خردنوش کی قیمتیں 50فیصدسے بھی کم کر دی جاتی ہیں اور یہاں قابل افسوس امر یہ ہے کہ ہم بحثیت مسلمان رمضان میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے بجائے ان کو لوٹنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ہیں انہیں باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت پنجاب نے صوبہ بھر میں سستے بازار لگانے کا اہتمام کیا ہے ا س ضمن میں پنجاب بھر میں کل 330رمضان بازار ،25ماڈل بازار اور 2000دستر خوان لگائے گئے ہیں حکومت پنجاب کی طر ف سے تو ان سستے بازاروں میں بہت سی سہولیات اور سبسڈی دینے کے اعلانات کیے جارہے ہیں لیکن اگر عملی طور پر جائزہ لیا جائے تو لوکل انتظامیہ مذکورہ سہولیات فراہم کرنے سے قاصر دکھائی دے رہی ہے کیونکہ فروٹس کی قمیتیں عام بازار اور سستے بازار میں یکساں ہیں جہاں پر حکومت پنجاب کی طر ف سے پورے پنجاب میں سستے بازار لگائے گئے ہیں وہاں تحصیل کلر سیداں میں بھی ٹی ایم اے کے زیر اہتمام بھی ایک سستے بازار کا قیام عمل میں لایا گیا ہے دیکھنا کہ ہے کہ کیا ان اقدامات سے غریبوں اور متوسط طبقے کو بھی کچھ ریلیف مل سکے گا یا نہیں سستے بازاروں میں صرف وہی لوگ آتے ہیں جو بڑے بڑے سٹوروں سے خریداری نہیں کر سکتے ۔متوسط طبقے کو ریلیف دینے کے لیے ٹی ایم اے کلر سیداں نے رمضان سے ایک د ن قبل ہی سستا بازار لگا دیا ہے جس میں ما چس سے لے کر آٹے تک کی چیزیں دستیات ہیں ۔اس سستے بازار میں جہاں اسسٹنٹ کمشنر اور ٹی ایم اے کلر سیداں کا کردار انتہائی اہم ہے وہاں پر چند دیگر محکمے بھی اپنا بھر پور کردار ادا کر رہے ہیں جن میں محکمہ لائیو سٹاک اور یونین کونسلز کا عملہ شامل ہیں اس سستے بازار میں اس دفعہ ایک بہت اہم چیز جو دیکھنے کو ملی ہے وہ یہ ہے کہ جوں ہی آپ مین گیٹ سے سستے بازار میں داخل ہوں تو وہاں پر دو سکرینز نصب کی گئی ہیں جو بجلی کی مدد سے چل رہی ہیں اور ان پر ہر چیز کی قیمت پٹی کی صورت میں چل رہی ہے خریدار کو کسی بھی چیز کی قیمت پتہ کرنے میں کی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے محکمہ لائیو سٹاک کے زیر اہتمام چھوٹا اور بڑا گوشت عام بازار سے 25 اور 30 روپے سستا مل رہا ہے یہ گوشت انتہائی اچھی قسم کا ہوتا ہے اسی سٹال پر مرغی اور انڈے بھی دستیاب ہیں گرین چینل پر سبزیاب نہایت ہی اچھی اور عمدہ قسم کی دستیاب ہیں اور سبزیات کی قیمت اتنی کم ہے کہ خریدار خریدتے وقت حیران ہو جاتے ہیں پہلی دفعہ رمضان سستا بازار کلر سیداں میں ایک اور نہایت ہی اہم سہولت دیکھنے میں ملی ہے کہ ایک عدد ایمبولینس بھی بازار میں موجود ہے جو کسی بھی ناگہانی صورتحال سے نمنٹنے کے لیے مہیا کی گئی ہے اس کے علاوہ ایک اور چیزبھی پہلی دفعہ دیکھنے کو ملی ہے کہ محکمہ صنعت و تجارت کا ایک اہلکار بھی سستے بازار میں موجود ہے جس کے پاس نہایت ہی اعلی قسم کا کنڈا موجود ہے اگر کسی کو ناپ تول کے بارے میں کوئی شکایات ہوں تو وہ اس کنڈے سے تول چیک کروا سکتا ہے جوکہ موقع پر ہی رزلٹ بتا دے گا اسسٹنٹ کمشنر کلر سیداں دیگر اہلکاروں کے ہمراہ صبح7 بجے سستے بازار میں پہنچ چکے ہوتے ہیں اور کوالٹی ریٹ اور تمام ضروری کام اپنی نگرانی میں کرواتے ہیں۔اسسٹنٹ کمشنر اور ٹیم ایم اے بذات خود فرداََ ،فرداََ اور ہر دکا ندار حتی کے صارفین سے بھی معلومات لیتے ہیں کہ آپ کو کیا مسئلہ درپیش ہے ۔سستے بازار میں دکانداروں کو ٹھنڈی اور سایہ دار جگہ مہیا کی گئی ہے اور دو ،تین دکانداروں کو ایک پنکھا اور روم کولر دیا گیا ہے بیٹھنے کے لیے آرام دے کرسیاں مہیا کی گئی ہیں بازار میں اگر کوئی طبی مسئلہ درپیش آجائے تو محکمہ صحت کلر سیداں کا عملہ بالکل فرنٹ پر کیمپ لگائے بیٹھا ہے ۔سٹا ل ہولڈروں کے بارے میں اگر کوئی شکایت ہو تو اسسٹنٹ کمشنر کی طرف سے ایک سیل قائم کیا گیا ہے جو فوری طور پر ضروری کاروائی عمل میں لا تا ہے ۔میں کسی نہ کسی حوالے سے سستے بازار میں مو جو د ہو تا ہوں اور میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ سستا بازار حقیقت میں سستا ہے ۔ہر بازار کی قیمت سے ٹی ایم اے کا بازار سستا ہے اور ہر چیزکی قیمت میں 5 سے لے کر 20 روپے تک فی کلو کا فرق ہے مشروبات ،دالیں،آٹا ، چینی ،کھجوراور دیگر تمام ضروی اشیاء ارزاں نرخوں پر مل رہی ہیں ان تمام انتظامات پر اسسٹنٹ کمشنر اور ٹیم ایم اے کلر سیداں یقیناًمبارکباد کے مستحق ہیں ۔کلر سیداں کی طرح اسسٹنٹ کمشنر شاہ باغ ،چوک پنڈوڑی ،کلر سیداں ،چوہا خالصہ ،دوبیرن کلاں اور سکو ٹ بازار میں بھی دورے کریں اور قیمتوں کو کنٹرول کروانے میں اپنا کردار ادا کریں۔اگر وہ اپنے کسی نمائندہ کو مذکورہ بازاروں کا دورہ کرنے کے لیے بھیجتے ہیں تو وہ اس نمائندہ پر بھی چیک اینڈ بیلنس رکھیں کہ وہ کوئی گڑ بڑ تو نہیں کر رہا ہے اور ان بازاروں میں الگ الگ ایک کمیٹی قائم کی جائے جو روزانہ کی بنیا د پر یہ رپورٹ دے کہ قیمتیں کس سطح پر ہیں دوسری طرف بہت سے علاقو ں میں بلخصوص روات سے لیکر مانکیالہ تک کے دوکانداروں کو ریٹ لسٹ مہیا نہیں کی جارہی ہیں جوکہ ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہوتی ہے ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ ایک طرف تو لسٹ مہیا نہیں کی جاتی جبکہ دوسری طرف چیکنگ ٹیم آکر دوکانداروں سے پہلا سوال یہی کرتی ہے کہ ریٹ لسٹ دکھائیں کہاں ہے جب دوکاندار جواب دیتے ہیں کہ ہمیں ریٹ لسٹیں فراہم نہیں کی جارہی ہیں توا س پر ان کو پکڑ کر استغاثہ مرتب کر کے جیل بھیج دیا جاتا ہے حالانکہ ایکشن تو اس انتظامیہ کے خلاف ہونا چاہیے کہ جس نے دوکانداروں کو ریٹ لسٹیں مہیا کرنے میں کوتاہی سے کام لے رہی ہے اس کے علاوہ ناجائز منافع خوروں سے بھی التماس ہے کہ روزہ محض بھوکا ،پیاسا رہنے کا نام نہیں ہے ۔ہم روزے کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر روزہ رکھتے ہیں روزہ مسلمان کو صبر سکھاتاہے اس کو اس امر کا احساس دلاتا ہے کہ ہمارے معاشرہ میں جو افراد پیٹ بھر کر روٹی کھانے کے قابل نہیں ہیں وہ ان کی تکلیف کا ازالہ کر سکیں ہمیں جھوٹ ، بے ایمانی ،غصہ ،چغل خوری کسی کا حق مارنے کسی کے خلاف سازش نہ کرنے کر درس دیتا ہے ۔رمضان میں زیادہ سے زیادہ خیرات کرنے اور پنے مصیب زدہ بھائیوں کی مدد کرنی چاہیے ۔رمضان تو ایک مہینے کا وہ تر بیتی پر وگرام ہے کہ اگر اس پر سہی عمل کیا جائے تو سال کے بقیہ مہینوں میں بھی ہر طرف ایک سلجھا ہو ا معاشرہ نظر آئے گا ۔ایک ایسا معاشرہ جہاں ہر شخص دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتا ہو ۔جہاں ناجائز کمائی دھوکہ دہی ،بے ایمانی مکر وفریب جیسی گھناؤنی برائیوں کا نام و نشان نہ ہو ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں روزے کا اصل مقصد سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین)
154