خالق کائنات مالک ارض و سموات نے دنیا بنائی بے شمارمخلوقات پیدا کیں زمین کووسعت بخشی آسمان کو بلندی عطاء فرمائی زمین کہ اوپر ندی نالے دریا سمندر بہانے کہ بعد انسان چرند پرند سمیت دیگر مخلوقات کوچلنے پھرنے رہنے سہنے کہ قابل بنایااوران کورزق بھی عطاء فرمایاجبکہ آسمان پر چمکتے ستاروں کاجال بچھایا چمکتے اور روشن چاندکوحسن بخشا،دھکتااور آگ برساتا سورج بغیر کسی سہارے کہ اپنی منزل کی جانب رواں دواں کیاآسمان کو وسعت وبلندی عطاء فرمائی اس آسمان کو بغیرکسی سہارا کے قائم کیااس آسمان کہ نیچے زمین پربلند وبالا پہاڑوں سمیت وسیع میدان بنائے پھر اس زمین کے اردگرد پانی کو اپنے آب وتاب سے بہنے کاحکم دیا پھر اسی پربس نہیں بلکہ پانی کہ اندر اپنی بیشمار مخلوقات کو وجود بخشا،اسی سمندر کے اندر اتنی بڑی بڑی مخلوقات بھی دیکھنے میں آئی جنھیں انسان حیرت زدہ نگاہوں سے دیکھ کر حیران و پریشاں ہے اوریہ کہنے پرمجبورہے کے اللہ ہی ہے جوان کوپیداکرکہ اس سمندر کہ اندر ایسی مخلوقات کورزق دینے پرقادرہے پھر اللہ تعالیٰ نے اسی پانی پر خشکی والی زمین بنائی جو براعظموں میں تقسیم ہوگئی اس سرزمین پر بھی بے شمار مخلوقات کو وجود بخشا پھر ان سب مخلوقات میں سے انسان کومنتخب کیا اور انسان کواشرف المخلوقات کا اعزاز عطا فرمایا تمام مخلوقات پر انسان کو فوقیت بخشی جب زمین و آسمان کا مالک اللہ ہے اس کائنات میں بسنے والی تمام مخلوقات کو وجود بھی اللہ نے بخشا اور خالق ومالک،رازق بھی اللہ ہی ہے تو دیگر مخلوقات اسی کی یاد میں حمد و ثناء میں مگن ہیں چرند پرند درند وغیرہ سب اس کی تعریف میں مصروف ہیں حیوانات بھی اسی وحدہ لاشریک ذات کی حمد و ثناء میں مگن ہیں کائنات کا ذرہ ذرہ رب العالمین کامحتاج ہے کائنات اور کائنات میں بسنے والی تمام مخلوقات کا خالق بھی اللہ ہے اور رازق بھی اللہ اسی ذات نے تمام مخلوقات کوبنانے کے بعد اسکے رہنے کھانے پینے کا بھی انتظام کردیایہ بات تو حقیقی یقینی اور بغیر کسی شک و شبہ کہ واضح ہے کے کائنات کا حقیقی خالق و مالک ایک ہی ہے وہی رازق ہے وہی موت وحیات کا مالک ہے سب اسکے سامنے عاجز ہیں قرآن مجید میں بے شمار جگہ پراس بات کو قرآنی آیات کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات انسانوں کو بتائی اور سمجھائی کہ رزق صرف اللہ دیتا ہے اور دے سکتاہے اس کے علاوہ کوئی کسی کو کچھ بھی نہیں دینے کی سکت رکھتا اور اللہ تعالیٰ زرق کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی قادر ہے جسے چاہے کشادہ زرق دے جسے چاہے تنگ کردے دنیا میں بے شمار لوگ ایسے ہیں جو برائے نام کام کرتے ہیں آمدنی بے حساب اور ایسے لوگوں کی بھی کم نہیں جو صبح سے لیکر رات تک کڑی دھوپ میں گرمی سردی بادل بارش کی پرواہ کئے بغیر سخت محنت و مشقت کرتے ہیں لیکن چند دام وصول کرنے کے سوا ان کو کچھ حاصل نہیں ہوتا اس ذات نے ہر کسی کہ حصہ کادانہ پانی مقرر کردیا ہرکسی کو اسکا حصہ ضرور ملے گاجب تک مخلوقات اپنے حصہ کازرق کھا نھی لیتی اس وقت تک انکو موت نہیں آئیگی انسان سب سے زیادہ اس رزق کی وجہ سے پریشان رہتا ہے اور اس سلسلہ میں صبر و تحمل کا دامن تھامنے کی بجائے صبرکا پیمانہ لبریز کرکہ بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے اور اس بے صبری میں غلط قدم اٹھاتے ہوئے کبھی تو چوری ڈکیتی اور کبھی حالات کی تنگی کا بھانہ بناکر خودکشی کرلیتاہے اور بعض اوقات توکوئی رزق کی تنگی کارونا روکراپنے بیوی بچوں کوبھی خود اپنے ہاتھوں سے موت کہ گھاٹ اتار دیتاہے جس کی خبریں اور مثالیں آئے روزخبروں میں سنتے اور اخبارات میں ہم پڑھتے اور دیکھتے ہیں جبکہ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے 12 پارہ کی ابتدائی آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح اعلان فرمادیاکہ زمین پر چلنے والا کوئی بھی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ ناہو اور وہ جانتا ہے اسی طرح سورہ الذاریات میں ارشاد باری تعالیٰ ہے”روزی و توانائی کا مالک اللہ ہے“سورہ ھود میں ارشاد باری تعالیٰ ہے”جس کے قبضہ قدرت میں مخلوق کا رزق و روٹی ہے اللہ ہی کی ذات ہے وہ جسے چاہے زرق میں وسعت دے وہی ذات ہے جسکے ہاتھ میں تمام معاملات کاحل اور زمین و آسمان کی کنجیاں ہیں زمین پرچلنے پھرنے والے جتنے بھی ہیں وہی انکے رہنے سہنے کی جگہ کوجانتاہے اور انکے سونپے جانے کی جگہ کوبھی“اسی طرح ایک اور جگہ قرآن مجید میں آیات موجود ہے سورہ العنکبوت میں ”اوربہت سے جانورہیں جواپنی روزی اٹھائے نہیں پھرتے ان سب کواورتمہیں بھی اللہ ہی رزق دیتاہے وہ بڑاہی سننے والاجاننے والاہے“سورہ الاسر میں ارشاد باری تعالیٰ ہے”یقیناً تیرارب جس کے لیے چاہے روزی کشادہ کردیتاہے جسکے لیے چاہے تنگ کردے یقیناً وہ اپنے بندوں سے باخبربھی ہے اور خوب دیکھنے والابھی“ان سب واضح احکامات ارشادات کہ بعد بھی اگر کوئی تنگی تکلیف کاروناروئے یامایوسی کی زندگی گزارے تو اس پر اس کی کم علمی پرافسوس ہی کیاجاسکتاہے کہ جب پیداکرنے والے رب نے سب کچھ اپنے ذمہ لیاہے توپھرکیوں ہم اس پر بھروسہ نہیں کرتے کیوں ہم اس ذات پر ایمان لانے کے بعدکامل یقین نہیں رکھتے پرندوں کی مثال ہمارے سامنے ہے صبح ہوتے ہی نامعلوم سمت کی جانب یہ اڑان بھرتے ہیں شام تک خوب سیر ہوکرواپس لوٹتے ہیں ناانکاکوئی کاروبار ہے ناذریعہ آمدن اورناکوئی نوکری لیکن وہ ان سب باتوں سے بے نیاز ہوکرخود بھی جی بھرکہ کھاتے ہیں اور اپنے بچوں کیلئے بھی لے کے آتے ہیں جبکہ دوسری جانب ہم انسان اشرف المخلوق ہونے کہ بعد صبر و تحمل کادامن چھوڑ دیتے ہیں خودتو یقین و بھروسہ رکھیں گئے ہم دوسروں کو کھاتادیکھنابھی برداشت نہیں کرتے جب ہمارے ہاں کوئی ملازمت کرتاہے ذرا سی ناراضگی پرہم سب سے پہلے اسے کام سے نکالتے ہیں اور یہی کوشش کرتے ہیں کہ ناتواسکوہم کام پر رکھیں اور ناہی اسے کسی اورجگہ اسے کام کرنے دیاجائے ہم اسکی راہ کام میں مداخلت بھی کرتے ہیں اوررکاوٹ بھی بنتے ہیں ہم اس وقت اس بات کوبھول بھی جاتے ہیں اور نظرانداز بھی کردیتے ہیں کہ رزق کے مالک ہم نہیں اللہ ہے رزق دینے والی ذات رب العالمین کی ہے ہم چاہیں بھی توکچھ نہیں کرسکتے جواس کے حصہ میں لکھاہے وہ اسے مل کے رہے گااور یہ بھی یاد رکھیں جوانسان کیلئے رزق اللہ نے مقررکردیاوہ اسے ہرحال میں ملے گاہاں اللہ نے اس بندہ کواتنااختیاردیاہے کہ وہ اسے حاصل کیسے کرتاہے حلال ذریعہ سے یاحرام ملے گااسے اتناہی اگر وہ محنت و مشقت سے حاصل کرے گاتوحلال اگر چوری ڈکیتی،دوسرے کاناجائز حق کھاکرحاصل کرے یاکسی بھی ناجائز طریقہ سے تووہ حرام۔
226